The global site tag (gtag.js) is now the Google tag. With this change, new and existing gtag.js installations will get new capabilities to help you do more, improve data quality, and adopt new features – all without additional code. قرآن مجید کا ایک فراموش کردہ سبق

قرآن مجید کا ایک فراموش کردہ سبق

 اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی


موبائل: 9894604606


 


جب سے دنیا میں انسانی آبادی کا وجود ظاہر ہوا تب سے یہ آبادی یہاں گونا گوں مسائل کا شکار ہوتی رہی ہے۔ ان مسائل میں بھوک اور فاقہ کشی کا مسئلہ ہمیشہ سر فہرست رہا ہے۔ کبھی قدرتی آفات کی وجہ سے تو کبھی آپسی جنگ و جدل کے سبب اور کبھی قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں ایسے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ انسان ایک ایک دانےکو ترس گیا، بڑی بڑی آبادیاں بھوک اور فاقہ کشی میں مبتلا ہوکے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ حالانکہ دنیا آج ترقی کی جس منزل ہر پہنچ چکی ہے اس کا تصور بھی کچھ دہائیوں پہلے محال تھا۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں عقل کو حیران کرنے والے سائنسی ایجادات نے انسانی آبادیوں پر آرام و آسائش کے ایسے ایسے دروازے وا کردئے ہیں کہ اس دنیا پر جنت کا گمان ہونے لگا ہے، اس کے باوجود کئی انسانی مسائل جوں کے توں آج بھی حل طلب نظر آرہے ہیں۔ ان میں بھوک اور فاقہ کشی کا مسئلہ ہمیشہ کی طرح سر فہرست ہے۔


فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ


The State of Food Security and Nutrition in the World (SOFI)2021 


 کے مطابق دنیا بھر میں سن 2020 میں 768 ملین افراد غذائی قلت اور دائمی بھوک کے شکار ہوئے۔ 2021 میں دنیا بھر کے 702 سے 828 ملین لوگوں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مزید برآں، دنیا بھرمیں تقریباً تین میں سے ایک شخص، یعنی تقریباً 2.31 بلین لوگ، 2021 میں اعتدال سے یا شدید طور پر غذائی عدم تحفظ کا شکار پائے گئے۔ اس رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر اس مسئلے کو حل کرنے کے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو 2030 تک دائمی بھوک کے شکار لوگوں کی تعداد 150 ملین سے بڑھ جائے گی۔




قرآن مجید دنیا بھر میں پائے جانے مذہبی کتابوں میں ایک نمایاں اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ رب العالمین کی جانب سے بنی نوع انسانی کی طرف بھیجی گئی آخری وحی کے طور پر خود کو متعارف کرانے والی یہ کتاب اول سے آخر تک صرف انسان اور انسانی مسائل سے ہی گفتگو کرتی نظر آتی ہے اور وہ بھی ایسے انوکھے انداز اور لہجے میں کہ جس کی مثال اس زمین پر ملنی ناممکن ہے۔ اگر انسان کھلے قلب و نظر کے ساتھ ہر قسم کے تعصب سے بالا تر ہو کر اس کتاب کو مشعل راہ بنائے تو نہ صرف اس کے تمام مسائل آسانی کے ساتھ حل ہوسکتے ہیں بلکہ اس کی زندگی دنیا کے لئے امن و امان کی وجہ بن سکتی ہے۔ بھوک اور فاقہ کشی کے مسئلے کا حل قرآن مجید ایک منفرد انداز میں پیش کرتا ہے۔ وہ اس کے لئے راست ان انسانوں کو حکم دینے کے بجائے جو اس مسئلے کو حل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تمام انسانوں کو اس کام پر لگاتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے آگے آئیں کیونکہ یہ ان کی ایسی ذمہ داری ہے جس سے کوئی 


استثنا نہیں اور اگر وہ اس کام میں پیچھے ہٹیں گے تو وہ سخت خسارے میں رہیں گے۔




أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ (1) فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ (2)وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ (3)  


(الماعون3-1) تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ۔ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔




خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُ (30) ثُـمَّ الْجَحِـيْمَ صَلُّوْهُ (31) ثُـمَّ فِىْ سِلْسِلَـةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْهُ (32) اِنَّهٝ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللّـٰهِ الْعَظِـيْ (33) وَلَا يَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِـيْنِ (34)  


(حکم ہو گا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو پھر اسے جہنم میں جھونک دو پھر اس کو ستر ہا تھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ (الحاقہ 34-30)۔




سورۃ الماعون کی آیت 3-1 اس بات کی دلیل ہےکہ جو لوگ مسکین کو کھانا نہیں دیتے ان کی بات کہہ کر نہیں، بلکہ جو لوگ کھانا دینے پر اُکساتے نہیں ان کی بات کہہ کر قرآن مجید یہ واضح کر رہا ہے اس کے نزدیک فاقہ کشی اور بھوک کے مسئلے کو حل کرنے کا ذمہ دار معاشرے کا ہر فرد ہےاور اگر کوئی اپنے اس فرض سے غفلت برت رہا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ بظاہر کتنا بھی اپنے آپ کو پارسا اور ایمان والا کہتا رہے اس کا شمار آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلانے والوں میں ہی ہوگا۔


سورۃ الحاقہ کی آیت سورۃ الماعون کی آیت سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اس آیت میں یہ بات با لکل واضح کر دی گئی ہے کہ جو، انسانی آبادی میں پائی جانے والے بھوک اور فاقہ کشی جیسے سر فہرست مسئلے کو حل کرنے کے لئے رب کائنات کی جانب سے تفویض کردہ فرائض منصبی سے رو گردانی کرے گا، دوسروں کوبھوکوں اور مسکینوں کو کھانے کھلانے کی ترغیب نہیں دے گا، اس کا ایمان اللہ پر بالکل نہیں مانا جائے گا اور اس کے ساتھ بروز آخرت بد ترین مجرموں کی طرح سلوک کیا جائے گا۔ ستر ہاتھ لمبی زنجیروں میں اسے جکڑ کر اس کے گردن میں طوق ڈال کر اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا جو یقینا اس کے لئے بدترین ٹھکانہ ہوگا اور اس طرح وہ سخت خسارے میں رہے گا۔


اتنی واضح قرآنی ہدایت کے باوجود حیرت ہےامت مسلمہ اس فرض کو ادا کرنے میں مسلسل کوتاہی برتتی آرہی ہے۔ ھل من مزید کے دوڑ میں الجھ کر وہ نفسی نفسی تو چلا رہی ہے پر اپنے اطراف میں بلکتے اور سسکتے انسانوں کی کراہیں اسے سنائی نہیں دے رہی ہیں۔ وہ یہ سبق بھول چکی ہے کہ اس کا منصب رب العامین اور رحمت العالمین کے واسطے سے اما م العالمین کا ہے اور بحیثیت امام و رہبر اس کا فرض ہے کہ وہ انسانوں کے ہر مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھے، امن عالم کے لئے کوشاں رہیں، انسانی آبادی کی بھوک اور فاقہ کشی جیسی عفریت سے آہنی دیوار بن کر حفاظت کرے، اس مسئلے کے حل کے لئے ہر ممکن اقدامات کرے لیکن افسوس ایسا نہیں ہورہا ہے۔


آج وطن عزیز میں ملت کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امت نے یہاں صدیوں حکومت کے مزے لوٹنے کے باوجود اپنے منصب اور فرض کو نہیں پہچانا اور اس کی ادائیگی میں انکار کے حد تک غفلت برتا۔ اپنے مسجدوں اور مقبروں کو سجانے سنوارنے کے لئے تو اس کے پاس بے تحاشا مال نکل آتا ہے لیکن اللہ کے بندوں پر خرچ کرنے کے لئے انہیں بھوک اور فاقہ کشی کی اذیت سے بچانے کے لئے اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملتی۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ غیروں کے عبادت گاہوں میں صبح و شام بلا تفریق مذہب وملت لنگر لگتے ہیں اور ہماری عبادت گاہیں فانوسوں اور قالینوں کی حفاظت کے لئے سوائے عبادت کے اوقات کے بند پڑےر ہتے ہیں۔ نہ کسی بھوکے کو کھانا کھلانے کی نہ کسی پیاسے کو پانی پلانے کی ہمیں توفیق ہوتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر ہم نے کھلانے اور پلانے کی دوسروں کو اگر ترغیب بھی نہیں دی تو بروز آخرت کس عظیم خسارے سے دو چار ہوسکتے ہیں، ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے دوسروں کی ترقی پر حسد کرتے اپنے خالق سے گلہ کرتے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ کچھ برسوں قبل کی بات ہے، ایک ریاست میں برپا ہوئے بدترین فسادات کے بعد جب وہاں کے کچھ طبقوں سے پوچھا گیا کہ انہوں نے کیوں اپنے آس پاس بسنے والے انسانوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کیا تو وہ یہی گلہ کرتے نظر آئے کہ جب وہ اناج کے ایک ایک دانے کو ترس رہے تھے اس وقت ان کے مطبخوں سے اشتہا انگیز انواع قسم کے کھانے کی خوشبوئیں انہیں تڑپاتی تھیں۔


آج وطن عزیز میں بھوک اور فاقہ کشی ایک وبائی بیماری کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ بھوک اور فاقہ کشی سے جوجھنے والے 116 ممالک کی فہرست میں بھارت 101 ویں مقام پر ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی لگ بھگ پندرہ سے پچیس فیصد آبادی غذائی قلت کی شکار ہے۔ ایسے میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم فورا اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوں اور اس کے حل کے لئے راستے تلاش کریں۔ اپنے مسائل کو اللہ کے حوالے کر کے اس کے بندے جس مسئلہ کا شکار ہیں انہیں اس کرب اور آفت سے چھٹکارا دلانے کی سبیل ڈھونڈے تو امید ہے اللہ ہمارے مسائل غیب سے حل کرادے۔بلا تفریق مذہب وملت اپنی عبادت گاہیں اپنے مدرسے اپنی خانقاہیں ہر ایک کے لئے وا کر کے وہاں بھوکوں کے لئےلنگر چلا کر پیاسوں کے لئے ٹھنڈا پانی مہیا کراکر انہیں اس بات کا احساس دلائیں کہ انسانیت کی خدمت ہمارا اولین فرض ہے اور ہم اس فرض کو بحسن و خوبی آج بھی ادا کر رہے ہیں۔ دلوں کو پلٹنے پر اللہ پوری طرح قادر ہے وہ عرب کے بدوؤں کو وحشی تاتریوں کو کعبے کا پاسبان بنا سکتا ہے اور آج بھی وہ اس پر پوری طرح قادر ہے، اس کی قدرت کو کبھی زوال نہیں ہے۔ بس ہمیں اتنا کرنا ہے کہ اس کے مسکین، بھوک و پیاس سے سسکتے بندوں کے چہروں پر مسکان سجانا ہے بغیر کسی نام و نمود اور شہرت کی خواہش کے صرف اس کی رضا کی خاطر، اگر ہم اس کار خیر کے ساتھ مکمل جڑ گئے تو یقین رکھئے بروز آخرت ہمیں جو انعام ملے گا وہ تو حق ہے لیکن اس فانی دنیا میں بھی قدم قدم پر اللہ کی مدد ہمیں میسر رہے گی۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین. 

Post a Comment

0 Comments