The global site tag (gtag.js) is now the Google tag. With this change, new and existing gtag.js installations will get new capabilities to help you do more, improve data quality, and adopt new features – all without additional code. دین حق ہر دور میں حقوق نسواں کا علم بردار

دین حق ہر دور میں حقوق نسواں کا علم بردار

 اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی


معلوم تاریخ کے روز اول سے انسانی معاشرے میں عورت کا مقام متنازَع فیہ مسئلہ رہا ہے۔


 ماں بہن بیٹی اور بیوی کے روپ میں تعمیر معاشرہ میں ایک اہم کردار نبھانے کے باوجود مردانہ اجارہ داری والے سماج نے کبھی عورت کی حیثیت کو مکمل تسلیم نہیں کیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہر قدم ہر موڑ اور ہر منزل پر اس کا استحصال کیا جاتا ہے۔اس کو گوشت پوست کے ایک انسان سے زیادہ ایک چیز کے روپ میں دیکھا جاتا ہے جسے استعمال کرکے مرد کے نفس کو تسکین حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ اُس معاشرے میں بھی جہاں عورت کو دیوی کے روپ میں خالقِ کائنات مان کر اس کی پوجا کی جاتی ہے، وہاں انسانی روپ میں اس کی حیثیت جانوروں کے برابر بھی نہیں مانی جاتی۔ اس کی شناخت اور انا کو مرد کی ذات سے اس بری طرح جکڑ دیا جاتا ہے کہ مرد کے موت کے ساتھ ہی اس کی ذات کی بھی موت واقع ہوجاتی ہے اور وہ ایک چلتی پھرتی لاش بن جاتی ہے۔ 


انسانیت کو خیر کا راستہ بتانے والے پیغمبروں، مذہبی اکابروں، فلسفیوں، دانشوروں کے مسلسل کوششوں کے باوجود عورت کوسماج میں وہ مقام نہ مل سکا جس کی وہ حق دار ہے۔ خالق کائنات کی اس خوبصورت ترین تخلیق پرمرد نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے ایسے ایسے قوانین بنا رکھے ہیں کہ الامان الحفیظ!! آج سے چودہ سو سال پہلے مکہ کی گلیوں سے اس مسئلے کو لے کر ایک گھمبیر آواز گونجی جس کی دھمک سے یہ احساس پیدا ہوا کہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا، کیو نکہ اس صدا میں وہ ہر بات تھی جو عورت کو سماج میں اس کا جائز مقام دلاسکتی تھی، اور ایسا ہوا بھی، اس آواز کی بازگشت جہاں تک پھیلی وہاں تک عورت کو اپنا جائز مقام ملتا چلا گیا اور وہ زندگی کے ہر محاذ پر مرد کے دوش بدوش نظر آنے لگی۔ پھر دھیرے دھیرے مردانہ اجارہ داری نے اس مضبوط آواز کے ارد گرد تفسیر و تفہیم کے نام پر لفاظی کا ایسا جال بنا کہ وہ صدائے حق و صداقت پس پردہ چلی گئی اور عرصہ دراز سے چلا آرہا استحصال نئے نئے ناموں کے ساتھ پھر سے عورت پر مسلط کر دیا گیا۔


موجودہ ترقی یافتہ دورمیں یہ مسئلہ اور بھی گھمبیر ہوچلا ہے۔ حقوق نسواں کے نام پر افراط و تفریط کا وہ کار زار مچا ہوا ہے کہ درمیانی راہ کی پہچان مشکل ترین ہو گئی ہے۔ ایک طرف آزادی کا نعرہ لگا کر مادر پدر آزاد کر کے عورتوں کو چوراہوں کی زینت بنایا جارہا ہے تو دوسری طرف انہیں رسم ورواج، غیرت کے نام پر چار دیواری میں قید کر کے رکھا جاتا ہے اور موقع آجائے تو انہیں قتل کر نے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ ایسے پر فتن دور میں صدائے حق و صداقت کے حاملین کا پہلا فرض یہی ہے کہ وہ معاشرے کے آگے درمیانی راہ کے نشانات کو علمی اور عملی طور پر اجاگر کریں، سماج کو رسوم و رواج کی خود ساختہ بندشوں اور اندھی تقلید کے اندھیروں سے نکال کر حق و صداقت کی اس روشنی اور صدا کی طرف لے آئیں جو رب کائنات نے آج سے چودہ سو سال پہلے اپنے ایک بر گزیدہ بندے کی وساطت سے اس راہ کی طرف رہنمائی کے لئے انسانوں کو عطا کی تھی۔ 


لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نور حق و صداقت کے حاملین اپنی خود ساختہ حصاروں اور بھول بھلیوں میں بری طرح الجھے ہوئے ہیں اور اس سے نکلنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک وہ جس راستے پر ہیں وہی حق ہے۔ اندھی تقلید اور اکابر پرستی نے ان کی انکھوں پر ایسی پٹی باندھ دی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ اپنے گھر میں موجود نور حق کو پہچاننے سے بھی قاصر ہیں۔ جنہیں عورتوں کے استحصال کے اس بدترین دور میں حقوق نسواں کے اصلی محافظ کے طور پرکھڑا ہونا تھا وہ خود عورتوں کے بنیادی حقوق ضائع کرنے انہیں کچلنے اور ان کی آزادی کو سلب کرنے میں آگے آگے رہتے ہیں۔


دین حق جب واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ وہ جنس کی بنیاد پر انسانوں کو تقسیم نہیں کرتا اس کے نزدیک دونوں کی حیثیت مساوی ہے اور معیار تقویٰ اور پرہیز گاری ہے تو پھر قدم قدم پر یہ پابندیاں اور جکڑ بندیاں کیوں؟ خود محسن انسانیت نے جب اپنے دور میں عورتوں کو وہ تمام حقوق عطا کئے جس سے اس کی شخصیت نکھرتی ہے اس کی ذات نمایاں ہو کر معاشرے کی تعمیر میں ایک مثبت کردار ادا کر تی ہے تو آج کیوں انہیں اپنے وہی حقوق دوبارہ حاصل کرنے سے روکا جارہا ہے۔ وقت بد ل رہا ہے۔ باطل اپنی تمام طاقتوں کےساتھ حق پر مسلسل یلغار کر رہا ہے ۔ سماج میں وہ اپنی یہ بات منوانے میں کامیاب ہوچکا ہے کہ حق و صداقت والے صرف باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں، عملاً ان سے زیادہ عورتوں کا استحصال کرنے والا روئے زمین پر شاید ہی کوئی ہو۔

اس ماحول میں بحثیت حاملین حق و صداقت، اگر ہم سمجھتے ہیں کہ جوحق اور صداقت کا نور ہمارے پاس ہے وہی حق ہے اور درمیانی راہ بھی، تو سب سے پہلے ہمیں عملاً یہ ثابت کرنا ہوگا کہ عورتوں کو یعنی ہماری نصف آبادی کو جو حقوق اور آزادی رب کائنات نے عطا کی ہے وہ انہیں میسر کرائیں۔ ہر وہ دروازہ جو رسم و رواج اور اندھی تقلید میں مبتلا ہو کر ہم نے ان کیلئے بند کررکھا ہے وہ ان پر پھر سے وا کردیں، تعلیم، روز گار اور سماجی سرگرمیوں میں انہیں وہ مقام دیں جو ان کا اصلی حق ہے۔ 

بالخصوص اپنی عبادت گاہوں کے دروازے ان پر کھول کر خالق کائنات کی اس بات کو سچ کر دکھائیں کہ " اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا، بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے۔" سورۃ توبہ71۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ آجکل اس مسئلے پر سماج میں بہت کھل کر گفتگو ہو رہی ہے اور محسن انسانیت کی اس عظیم سنت کی طرف واپسی کو وقت کی شدید ضرورت کہا جارہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اس سے پہلے کہ باطل کوئی ایسی چال چلے جس سے یہ مسئلہ حق پرستوں کے لئے باعث شرمندگی بن جائے اور وہ سماج کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائے کہ حق پرستوں نے اپنی عبادت گاہوں کے جو دروازے خود اپنی عورتوں پر صدیوں سے بند کر رکھے تھے وہ اسی کے باعث وا ہوئے ہیں۔ کاش اس سے پہلے کہ ایسا کچھ ہوجائے حق پرست دیوار کے لکھے کو پڑھ لیں، خواب غفلت اور اندھی تقلید کی گہری نیند سے بیدار ہو کر ایک عظیم اور صدیوں سے بھولی ہوئی سنت کی طرف مراجعت کر لیں۔  

Post a Comment

0 Comments