The global site tag (gtag.js) is now the Google tag. With this change, new and existing gtag.js installations will get new capabilities to help you do more, improve data quality, and adopt new features – all without additional code. رمضان المبارک کے آخری عشرے میں الوداع پڑھنے کی قدیم روایت کو شرمسار مت کیجئے

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں الوداع پڑھنے کی قدیم روایت کو شرمسار مت کیجئے

 رمضان المبارک کے آخری عشرے میں الوداع پڑھنے کی قدیم روایت کو شرمسار مت کیجئے


✍️ مدثر رضا


                 آج سے تقریباً بیس پچیس سال پرانی بات ہے جب میری نانی کا گھر اسلام پورہ میں ہوا کرتا تھا اکثر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں میرا قیام میری نانی کے گھر ہوا کرتا تھا وہ بھی صرف اس لئے کہ رات کے آخری پہر میں پانچ سے سات افراد پر مشتمل الوداع پڑھنے والوں کی ایک ٹیم گلی محلے میں دستک دیتی ہوئی داخل ہوتی تھی ان الوداع پڑھنے والوں کے اندر ڈسپلن اور انکے کلام میں اس قدر روحانیت ہوتی تھی کہ ہر انسان کا دل ان الوداع پڑھنے والوں کی جانب خود بخود مائل ہوا کرتا تھا اور جب سننے والوں میں ایک انسان کی روحانی کیفیت لبریز ہوجاتی تو وہ خود بخود حوصلہ افزائی کیلئے ان الوداع پڑھنے والی ٹیم کو کچھ روپیہ عنایت کرتا مگر ناچیز کا گذشتہ کئی سالوں سے آج کے الوداع پڑھنے والوں پر مشاہدہ ہے اور بہت دکھ کے ساتھ یہ باتیں تحریر کر رہا ہوں کہ آج کے دور میں الوداع پیسہ کمانے کا ایک نیا ذریعہ بنایا جا رہا ہے پہلے روزے  سے پندرہ روزے تک آمد رمضان کی مناسبت سے جس کو جو سمجھ میں آرہا ہے وہ پڑھ رہا ہے اور وہ بھی کبھی روزہ افطاری کے فوراً بعد تو کبھی نماز تراویح کے بعد ان الوداع پڑھنے والوں کی اسوقت انتہا نہ رہی جب ناچیز نماز عصر کے بعد تین لوگوں کو الوداع پڑھتے ہوئے دیکھا اور کچھ حضرات تو باقاعدہ مائک کے اہتمام کے ساتھ الوداع کے نام پر اپنی ڈفلی اپنا راگ کی مصداق الاپ رہے ہیں


     اور آج کے الوداع پڑھنے والوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ لوگ صرف دو یا تین افراد ہی ہونگے تاکہ جو پیسہ انہیں الوداع پڑھنے پر ملتا ہے اسکا تین حصہ ہو اس کے برعکس آج سے بیس پچیس سال پیچھے الوداع پڑھنے والوں کو دیکھو تو دل مسرور ہوجاتا تھا کم از کم پانچ سے سات افراد پر مشتمل ٹیم ہوا کرتی تھی نگاہیں نیچی مترنم آواز میں مستند کلام پڑھے چلے جاتے تھے اگر ہمیں ان کو کوئی پیسہ دینا ہوتو ہمیں دوڑ کر انکی جانب بڑھنا ہوتا تھا مگر افسوس آج کے الوداع پڑھنے والوں نے شہر کی اس قدیم روایت کو شرمسار کر رہے ہیں انہیں اس طرح کی حرکتوں سے باز آنا چاہیے تاکہ شہر کا وقار مجروح نہ ہو

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

Post a Comment

0 Comments