The global site tag (gtag.js) is now the Google tag. With this change, new and existing gtag.js installations will get new capabilities to help you do more, improve data quality, and adopt new features – all without additional code. ہندوستان کی جنگ آزادی میں چنیدہ خواتین کا کردار

ہندوستان کی جنگ آزادی میں چنیدہ خواتین کا کردار

  ہندوستان کی جنگ آزادی اور چنندہ خواتین کا کردار


یاسمین (گیسٹ فیکلٹی جونیئر گرلس کالج ،تلنگانہ) 


 تواریخ ہند ہماری ملک کا ایک بے بہا خزینہ ہے اس کے مطالعے سے ہم انمول سبق آموز موتی حاصل کرسکتے ہیں تواریخ صرف ہماری تہذیب اور ہمارے تمدن پر ہی روشنی نہیں ڈالتی بلکہ ہماری خامیوں اور غلطیوں کو بھی بنا لاگ لپٹ ہماری روبرو کردیتی ہے۔تواریخ ایک تصویر ہے جس میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہم پہلے کیا تھے اور اب کیا ہیں۔

ہماری تواریخ شجاعت و دلیری ایثار قربانی کی بے پناہ مثالوں سے پڑی ہے ایسے بہادروں کی کمی نہیں جنھوں نے وطن کی آبرو کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ نچھاور کردیا۔ان بہادروں کی کہانیاں بدن کے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔انگریز ہندوستان میں سترھویں صدی عیسوی میں آئے ہندوستان کی شادابی اور زرخیزی پر انھوں نے طمع خیز نظریں ڈالیں کہ اس وقت ملک کا عجیب نقشہ تھا یہاں کے لوگ بھولے بھالے سادی دل اور مہمان نواز تھے لیکن ان میں اتحاد یکجہتی نہیں تھی ان کے دل آپس میں ایک دوسرے سے پٹھے ہوئے تھے انگریزی مکار اور عیار قوم کے تجارت پیشہ لوگ تھے ان لوگوں نے کنیہ توزی سے حالات کا جائزہ لیا۔اور ہندوستانیوں کی آپسی پھوٹ سے فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کی۔ایسٹ انڈیا کمپنی اس فن میں طاق تھی.اس نے تدابیر شروع کردیں کہ کس طرح ہندوستان پر تسلط جمایا جائے ملک کی بد قسمتی سے دیسی راجاؤں 'نوابوں اور جاگیرداروں کے ذریعے انہیں ایک طبقہ ایسا مل گیا جس کے ذریعہ وہ ہندوستان کے بڑے حصے کے مالک بن بیٹھے(بنگال)۔

آج ہم آزاد ہندوستان میں سانس لے رہے ہیں واقعی یہ خوشی کا موقع ہے صدیوں کی غلامی کی بیڑیوں کو توڑ کر ملک آزاد ہوا اور دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت بن کر ابھر رہا ہے ہمارے لئے یہ باعث افتخار ہے لیکن اس کے حصول کے لئے ہمارے اجداد نے جو صعوبتیں اور اذیتیں اٹھائیں حتیٰ کہ اپنی جانیں بھی قربان کیں انھیں بھی یاد رکھنا ضروری ہے یہ آزادی اسی خوں شہیداں کا ثمرہ ہے ان شہیدوں کے لئے سب سے بڑا نذرانہ عقیدت یہ ہوگا کہ آزادی کی جس مشعل کو انھوں نے اپنے لہو سے روشن کیا اسے اور بھی زیادہ تابناک کیا جائے۔

مجاہدین آزادی کا لفظ سنتے ہی ہمارا ذہن ان لاکھوں انسانوں کی قربانیوں اور ان کے عظیم کارناموں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے جن میں بہت سے لوگوں نے قوم کی سر بلندی اور اس روشن مستقبل کی راہوں میں اپنی جانیں قربان کردیں ان ہی عظیم ہستیوں کے جذبات و احساسات جرات و شجاعت 'شرافت نفسی اور بلند عزائم تک رسائی حاصل کرنے اور انہیں محفوظ کرنے کی ایک کوشش ہے۔

دنیا کے اندر کسی بھی قسم کی غلامی چاہئے وہ سماجی ہو یا معاشی یا سیاسی' ہمیشہ لوگوں میں شدید تاب مقاوت پیدا کرتی ہے ہندوستان پر غیر ملکی تسلط کی تاریخ بھی جدوجہد آزادی کے ایسے کارناموں سے معمور کے لئے عوام نے ایثار قربانی اور عزم و حوصلہ کا ثبوت دیا اور اپنی زندگیاں وقف کردیں تھیں بر طانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی تاریخ 1857ء کے مجاہدانہ سر گرمیوں سے شروع ہوتی ہے گاندھی جی'جواہر لال نہرو' امبیڈکر 'سبھاش چندرا بوس' ٹیپوسلطان 'ابوالکلام آزاد جیسے عظیم رہنماؤں کے قومی مجاہد اپنے ملک کی آزادی کے لئے اسی خلوص نیت' جانسوزی اور اتحاد باہمی کے ساتھ مسلسل جدوجہد میں مصروف رہے۔ہماری تاریخ کا یہ ایک ایسا باب ہے جو ہماری آئندہ نسلوں میں زندگی کی روح پھونکتا رہے گا۔

      جن سورماؤں نے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا وہ ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے مادر وطن کی سچی محبت اور اس کو غلامی کے نیچے سے نجات دلانے کا شدید جذبہ ان کے وجود میں سرائیت کر گیا تھا۔ہندوستان کے شہیدانِ آزادی کا یہ تذکرہ جہاں ان کی یادوں کو زندہ و تابندہ بنانے کا خیال مضمر تھا یہ تذکرہ ہماری آنے والی نسلوں کو یاد دلاتا رہے گا کہ آزاد ہندوستان کی تعمیر میں بے شمار قربانیاں دی گئی ہیں گاندھی جی کے آزاد ہندوستان کا خواب انہیں مجاہد آزادی کی ہزار قربانیوں کی بدولت پورا ہوا۔آنے والے برسوں میں بھی ہمیں سماجی 'معاشی غلامی خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی تاکہ ہماری آزادی ایک نئے عنوان اور ایک نئے مفہوم سے ہمکنار ہوسکے۔مجاہدین آزادی کے یہ ولولہ انگیز کارنامے یقیناً ہمارے لئے تقویت کا سر چشمہ ثابت ہوں گے ہندوستان ایک وسیع ملک ہے اپنی جغرافیائی ساخت کے اعتبار سے ایک براعظم ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف زبان بولنے والے آباد ہے دوستوں کے لیے اس کا دل وسیع ہے مگر دشمنوں کے لیے اس دل میں جگہ نہی ہندوستانیوں نے بلا تفریق مذہب و ملت آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ہندو اس ملک کو بھارت ماں کہتے ہیں اور ہم اسے مادر وطن کہتے ہیں وطن کی محبت ہمارے ایماں کا جز ہے اگر کسی کے دل کو ٹٹولا جائے تو اسے اپنے صوبہ سے محبت ہے اس کے بعد اس کو اپنے ضلع سے محبت ہے اس کے بعد اس کو اپنے گاوں سے محبت ہے اور پھر گاوں میں اسے اپنے گھر سے محبت ہے اس طرح ہر ہندوستانی کو اپنے وطن سے محبت ہے۔


ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے آزادی کے متوالوں نے 1857ء میں آواز اٹھائی بغاوت کی اور آزادی کی مانگ رکھی جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا۔ آزادی کی اس پہلی جنگ میں ہندوستانی اپنے مقصد میں کامیاب نہی ہوسکے لیکن انگریزی حکومت کی بنیادیں ضرور ہل گئیں۔آگ بظاہر بجھ گء لیکن چنگاری دلوں میں دبی رہی اور بیسوی صدی کے آغاز میں شعلہ بن کر بھڑ کی۔ ''لوک مانیہ تلک'' نے نعرہ بلند کیا '' آزادی میرا پیدائشی حق ہے اور میں اسے لیکر رہونگا'' ان کے ساتھ موتی لال نہرو 'سبھاش چندرا بوس' سردار ولبھ بھائی پٹیل 'پنڈت نہرو' گاندھی جی وغیرہ نے آواز ملائی آزادی کی جنگ نے زور پکڑا۔ پورا ہندوستان ایک ہوگیا نتیجتاً 1947 ء میں انگریزوں کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ ملک آزاد ہوگیا۔

جنگ آزادی میں جہاں سینکڑوں 'ہزاروں ' لاکھوں مردوں نے ظلم سہے جیل گئے پھانسی چڑھے وہاں خواتین ہند بھی پیچھے نہیں رہیں انھوں نے صرف اپنے شوہروں اور بیٹوں کو جنگ میں حصہ لینے کے لئے راغب کیا بلکہ خود ان کا ساتھ دیا۔ جلسے جلسوں میں شرکت کی مظاہرے کئے گرفتار ہوئیں جیل کی صعوبتیں برداشت کیں بلکہ گولیاں کھائیں زندہ جلیں اور پھانسی چڑھیں۔آزادی کی پہلی لڑائی میں مہا رانی لکشمی بائی کی خاتون فوج نے ایک مثال قائم کی تھی اسی لئے 1885ء کا کانگریس کی تشکیل کے بعد خواتین نہایت جوش و خروش کے ساتھ آزادی کی جنگ میں شامل ہونے لگی تھیں۔گاندھی جی نے ہمیشہ خواتین کی طاقت کو تسلیم کیا جنگ آزادی میں خواتین کے حصے کو لے کر وہ صاف کہتے ہیں ''قومی تحریک 

آزادی کی تاریخ بھارت کی خواتین کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی''

جنگ آزادی کی ان جانباز خواتین نے آزادی کی خاطر تمام تکالیف کا سامنا کیا ان کے دلوں میں ملک سے محبت کی جو شمع روشن تھی اس نے صعوبتوں کے اندھیروں کو ان پر حاوی نہیں ہونے دیا۔تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان جنت شاں کی سر زمین پر جہاں ہماری مایہ ناز خواتین نے اقتدار سنبھالا تلوار اٹھائی ملک کے آزادی کے لئے پرچم لہرایا ملک کی حفاظت کے ساتھ پیکروفا بن کر اس کی قومی یکجہتی کو بحال رکھا.

جنگ ہمیشہ ہتھیاروں ہی سے نہیں لڑی جاتی حکمت سے بھی لڑی جاتی ہے جنگ میں قربانیاں دی جاتی ہیں مثالیں قائم کی جاتی ہیں. آزادی کی جنگ میں بھی خواتین نے چند ایسی مثالیں قائم ہیں۔جن پر بجا طور پر فخر کیا جاسکتا ہے جنگ آزادی کی ان جانی انجانی مجاہء خواتین کے کارہائے نمایاں کا جائزہ لینا ضروری بھی ہے آج کے اس جدید دور ہی میں عورتیں مرد کے شانہ با شانہ کام کررہی ہیں تاریخ کے اس دور میں بھی وہ مردوں کے ساتھ تھیں جب ہندوستانی آزادی حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے تھے۔

        بیگم حضرت محل:

 بیگم حضرت محل کا شمار ہندوستان کی ان نامور ہستیوں میں ہوتا ہے جن کی جانبازی اورقربانی سے تاریخ کے اوراق درخشاں ہیں 1857ء کے غدر میں بیگم صاحبہ نے اپنی دلیری روشن دماغی اور حب الوطنی کا جو ثبوت پیش کیا اس کے پیش نظر تاریخی شہ پارے کے مصنف کا قول ہے کہ

 ''اگر یہ با ہمت عورت کسی اور قوم میں پیدا ہوتی تو سینکڑوں کتابیں اس کے بارے میں لکھی جاتیں اور اس کا نام ہر شخص کی زبان پر ہوتا''

                                            (ص114۔خواتین ہند کے تاریخی کارنامے۔فضل حق عظیم آ بادی)

لیکن حسب بالا قول کے بر عکس وہ عظیم مجاہدہ جس کی بہادری اور فراست پر خود شجاوت کو ناز ہے جس کی سیاست نے انگریزوں کی شاطرانہ سیاست سے زبردست ٹکر لی۔جس کی انتظامی صلاحیت کا لوہا بڑے بڑے مدیروں نے تسلیم کیا. جس نے بڑے بڑے تاریخی نویسوں 'سرداروں اور رپورٹروں کے دل جیت لئے جو اس ملک میں ہندو مسلم اتحاد کا علمبردار تھی اور جس نے پیشانی کے باوجود انگریزوں کی تابعداری قبول نہیں کی از ہندوستان نے اسے فراموش کردیا۔

بیگم حضرت محل کا اصلی نام محمدی خانم تھا اور کہی پر لکھا ہوا ہے کہ ان کا ایک اور بچپن کا نام امراو بیگم بھی تھا اور یہ فیض آباد یوپی کی تھیں یہ واجد علی شاہ کے خواصین کے طور پر داخل ہوئیں بیگم حضرت محل پٹھانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور انھیں ایک دلال نے باقاعدہ ان کو ان کی قیمت ادا کرکے انہیں نواب صاحب کی پریوں میں داخل کیا۔پہلے تو یہ صرف ڈانس سیکھتی رہیں اور بعد میں نواب صاحب نے ان کی ذہانت دیکھ کر ان سے شادی کرلی۔اور یہ واجد علی شاہ کی تیسری اور آخری بیوی تھیں جب انھیں لڑکا ہوا تو ان کو نواب اودھ کے طرف سے حضرت محل کا خطاب دیا گیا۔بیگم حضرت محل کی ابتدائی زندگی پردہ راز میں ہے وہ ایک پری کی حیثیت سے واجد علی شاہ کے حرم میں داخل ہوئی تھیں رفتہ رفتہ ترقی کرکے حضرت محل کہلائیں واجد علی شاہ نے کبھی انھیں اتنی اہمیت نہیں دی کہ اپنے ساتھ کلکتہ لے جاتے لیکن اسی بیگم نے تاریخ میں ان کا نام روشن کیا۔

1856ء میں نواب واجد علی شاہ پر عیش پرستی اور سلطنت کی طرف سے لاپرواہی برتنے کے الزامات عائد کرکے جلا وطن کردیا گیا۔حضرت محل نے اودھ کی حکومت سنبھالنے اور انقلابیوں کی قیادت کرنے کی حامی بھر لی اپنے نا بالغ بیٹے بر جس قدر کو تخت پر بٹھا کر وہ میدان عمل میں اتر آئین حضرت محل نے جن شرائط پر قیادت قبول کی تھی انھیں دیکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کسی ذاتی فائدے کے لئے نہیں بلکہ جذبہ حب الوطنی کے تحت انھوں نے انگریزوں سے ٹکر لی تھی۔

حضرت محل اپنے بیٹے برجیس قدر کے حکومت کے کام بھی انجام دیتی تھیں اور بہادرانہ طریقہ سے فوج کی بھی قیادت کرتی تھیں انگریز چاہتے تھے کہ اگر حضرت محل لڑائی بند کردیں تو ان کا وظیفہ جاری کردیا جائے گا مگر وہ اس کو انگریزوں کا فریب سمجھتی تھیں وہ بڑے حوصلے اور منتقل مزاجی ان کا مقابلہ کرتی رہیں عالم باغ کے معرکے خود فوج کی کمان سنبھالی اور سالاری کے کام کو انجام دیا۔

1858ء میں بیگم حضرت محل نیپال روانہ ہوئیں جہاں انگریزوں سیمانگئے پھر ان کا مقابلہ ہوا انگریزی فوج شکست کھا کر پیچھے ہٹی اور چڑ کر نیپال کے مہا راجا سے بیگم اور ان کے ساتھیوں کو نیپال سے نکال دینے کے لئے کہا نیپال کے مہا راجا نے حضرت محل اور برجیس قد کو پناہ دینا منظور کیا مگر ان کے ساتھیوں کو نیپال سے نکل جانے کو کہا بیگم حضرت محل نے اس تجویز کو منظور نہی کیا انھوں نے کہا ''میں آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہوں مگر انگریزوں سے سمجھوتہ کرنے کو ہرگز تیار نہیں ''

دوسری طرف ان کے وفادار دوستوں میں ہر دوئی کے تعلقہ دار جو تن تنہا لڑتے رہے یہاں تک کہ انگریزوں کی گولیوں نے انھیں بھون دیا۔نیپال کے محرکہ کے بعد بیگم حضرت محل کی انقلابی سرگرمیاں سرد پڑ گئیں کیونکہ نیپال کے مہا راجا نے ان کے رسد روک دی تھیں اس وقت اگر گورگھا سپاہیوں نے اپنے مہا راجہ کی قیادت میں بیگم حضرت محل کا ساتھ دیا ہوتا تو آج آزادی کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔


انگریزوں نے ملکہ وکٹوریہ کا اعلان شائع کرایا جس کا نہایت معقول جواب حضرت محل نے دیا ملکہ کا اعلان تو تاریخ کے صفحات میں گم ہوگیا جبکہ بیگم حضرت محل کے جواب کو تاریخ نے محفوظ کرلیا لکھنو میں یہ یادگار موجود ہے۔حضرت محل نے انگریزوں کا ہر مرحلے پر بہادری سے مقابلہ کیا شکست ان کے نصیب میں تھی انگریزوں نے انھیں طرح طرح کے لالچ دیئے انھیں مرعوب کیا مگر وہ کسی طرح معافی مانگنے کو تیار نہ ہوئیں جس حکومت کے خلاف تلوار اٹھائی تھیں اس کے سامنے سرجھکانا گوارانہ کیا اور تمام مراعات ٹھکراکر سادگی سے زندگی بسر کرنے کو فوقیت دی۔بیگم حضرت محل ایک نڈر اور قابلِ رہنما تھیں ڈبلیو - ایچ-رسل نے ان کے بارے میں کہا

''بیگم بڑی طاقت اور قابلیت نظر آتی ہے ہم سے جنگ کا انھوں نے اعلان کیا اور اس پر قائم رہیں ''  

(ص24۔ 25۔ہندوستان کی جنگ آزادی میں خواتین کا حصہ - ڈاکٹر بانو سر تاج)

بیگم حضرت محل کے مخالفین تک اعتراف کیا ہے کہ وہ نہایت نڈر عہد کی پکی اور نہایت با صلاحیت خاتون تھیں تمام وزراء اور امراء سے زیادہ قابل تھیں واجد علی شاہ کی دوسری بیگمات بھی ان کی قابلیت اور شجاوت کا کھلے دل سے اعتراف کرتی تھیں شیدا بیگم نے ایک خط میں واجد علی شاہ کو لکھا تھا کہ ''آپ کے جانے کے ایک سال بعد وہ بلوے ہوئے وہ مصیبتیں آئیں کہ خدا دشمن کو بھی نہ دے۔حضرت محل نے ایسی بہادری دکھائی کہ دشمن کے منہ پھر گئے بڑی جی دار عورت نکلی آپ کا نام روشن کردیا کہ جس کی بیگم ایسی بہادر اور مردانہ وار مقابلہ کرنے والی ہے اس کا شوہر بہادر اور شجاع ہوگا ''بیگم حضرت محل کا انتقال کا ٹھمانڈو میں 1874ء میں برف محل میں ہوا یہ عمارت انھوں نے ہی تعمیر کرائی تھی اس پر ان کا پرچم لہراتا رہتا تھا

آزادی کی جس جنگ کا آغاز جون 1857ء میں ہوا تھا اس کی انتہا دسمبر 1857 ء میں ہوئی بیگم حضرت محل کا ماننا تھا'' یہ ہندوستان کی آزادی کی جنگ کی انتہا نہیں ابتداء ہے اور واقعی وہ صحیح کہتی تھیں انتہا تو 1947 ء میں ہوئی جب ہندوستان انگریزوں کی قید سے آزاد ہوا۔

ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین تحریر کرتی ہے کہ:-

'' بیگم حضرت محل کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے جس کے ہاتھوں آزادی کی شاندار فتح کی حیثیت اول رکھی گئی 1857ء کے پر آشوب زمانہ میں اودھ کے باغی سپاہیوں کی قیادت کا بارگراں اپنے کاندھوں پر اٹھا کر انھوں نے جن غیر معمولی جرات بہادری اور ذہانت کا ثبوت دیا اسے جنگ آزادی کی تاریخ نے اپنے اوراق میں محفوظ کرلیا''

(ص 87-خواتین ہند کے تاریخی کارنامے - فصل حق عظیم آبادی)

بیگم حضرت محل عوام اور فوج کے دلوں میں قربانی اور حب الوطنی اور جوش بھر دیتی تھیں حضرت محل نے بھی رانی لکشمی بائی کی طرح عورتوں کا ایک سنگھٹن تیار کیا تھا ڈاکٹر سمیع الدین نے ان کی وفات کا سن 1874 ء تحریر کیا اور حضرت محل نے نیپال پہنچ کر ایک دفعہ یہ اعلان کیا تھا کہ ''ہندوستان کی جنگ آزادی کا یہ اختتام نہی آغاز ہے ان کا یہ قول صحیح ہوا 1857 ء کے مجاہدوں کی روشن کی ہوئی شمع 1947 ء میں وطن پرستوں کے سینوں میں مشعل بن کر بھڑکتی ہے''(ص۔ 87۔جنرل بخت خان۔محمود علی)

        ا س طرح بیگم حضرت محل نے بیرونی طاقت کی غلامی سے آزادی کے مبارک جذبہ کے تحت ہندوستان کی آزادی کی وہ خشت اول رکھ دی جس پر آج ہمارے پورے ملک کی آزادی کی قابل فخر عمارت تعمیر ہوگئی۔ ہندوستان کی آزادی کی پہلی جنگ کے مجاہدین میں بیگم حضرت محل کا مقام ایک یاد گار رہے انھوں نے اودھ میں نہ صرف آزادی کی مسلح لڑائی کا کامیاب مقابلہ کیا بلکہ مجاہدین کی عزت کی حفاظت کے لئے اپنی جان تک کی بازی لگا دی بلکہ انھوں نے اپنے عیش و آرام کو خیر باد کہا اور جنگ آزادی میں عوام کا ساتھ دیا اور انگریزوں کی پیش کش کو ٹھکراکر اپنی عزت بچانے کے لئے نیپال کی رہائش کا رخ بھی کیا تھا۔حضرت محل پر ہم بجا طور سے فخر کرسکتے ہیں انھوں نے حرم شاہی کی ایک بیگم ہونے کے باو ہمت و تجارت دکھائی کہ خاتون ہند کی روانی عظمت میں چار چاند لگ گئے۔

1857 ء کے بعد 1947ء تک انگریز ہندوستان پر مسلط رہے اور اپنی مرضی کے مطابق حکومت کرتے رہے جنھوں نے آزادی کی لڑائی لڑی ان کو باغی قرار دیا گیا اور ان کے نام و نشان کو مٹانے کی بھی کوشش کی گئی۔

آج حضرت محل کی مکمل تفصیل اور ان کے ساتھ لڑنے والوں کے بارے میں تاریخ کے اوراق میں بہت کچھ نہی ملتا۔بیگم حضرت محل کی مکمل سوانح نہیں ملتی۔ہندوستان کی عظیم مجاہدہ کو وہ مقام آج تک نہ مل سکا جس کی وہ حقدار ہیں ان پر کوئی مکمل کتاب بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔بیگم حضرت محل نے اپنی قائدانہ صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے انگریزوں سے جنگ کی اپنی رعایا 'پڑوسیوں راجا مہا راجا جاگیرداروں نوابوں کو متحد کیا انگریزوں نے ہندوستان کی بیشتر ریاستوں کو کمپنی کے تحت لینے کا کام دھیرے دھیرے شروع کردیا تھا انگریزوں اور بیگم حضرت محل کے درمیان جنگ کو ہندوستانی پس منظر میں بھی دیکھنا چاہئے۔

نشاط النساء بیگم:

حسرت بیگم کی کہانی بھی ان گنت کہانیوں میں سے ایک ہے اور ساتھ ہی ان بہت سی بھولی بسری داستانوں میں شمار کی جاسکتی ہے جن کے ساتھ آزاد ہندوستان کی تاریخ نے مناسب انصاف نہیں کیا۔ بیگم حسرت کا شمار ان خواتین میں ہوتا ہے جنھوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں قومی تحریک آزادی میں بھر پور حصہ لیا۔بیگم حسرت میں پوری امتیازی حیثیت حاصل ہے کہ انھوں نے حسرت کو جن کی تمام تر زندگی آزادی کی مکمل تفسیر رہی نہ صرف لیلائے حریت کے سپرد کردیا بلکہ اپنی زندگی کو بھی قوم کے لئے وقف کردیا چکبست نے ان کی قومی خدمات کو سراہتے ہوئے ''صبح امید'' میں قوم کے جوانوں کو مشورہ دیا تھا۔بیگم حسرت کی زبان عام جلسوں میں پولیٹیکل مردانگی کا راگ گانے کے لئے خلق نہیں ہوئی ہے مگر اس شہید وفا کی زندگی کا نغمہ' خاموش 'وطن پرستوں کی روح کے لئے کافی ہے۔جدوجہد آزادی میں بیگم حسرت کے ایثار اور ان کے سیاسی شعور کے ارتقاء کا جائزہ حسرت کی سیاسی نظریات و عقائد کے تجزیہ کے بغیر ممکن نہیں۔


نشاط النساء بیگم حسرت موہانی کے نام سے مشہور ہیں 1885ء اناؤ (یوپی) کے ایک قصبہ موہان میں پیدا ہوئیں ان کی شادی مولانا حسرت موہانی سے 1905 ء میں ہوئی نشاط النساء بیگم ایک با حوصلہ اور بہترین رفیق حیات ثابت ہوئی بلکہ اس نے زندگی کے سارے مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کیا یہاں تک کہ چکی پیس کر اجرت پر سلائی کرکے نمک روٹی کھا کر زندگی گزاردی لیکن میدان جنگ آزادی میں شوہر کا پشت دیکھنا گورا نہیں کیا۔بیگم حسرت کے کردار سے متاثر ہوکر سید سلیمان ندوی نے کہا تھا

''شوہر کے قید و بند کے بعد جبکہ ان کا کوئی مونس و مدد گار نہی ہوتا ہر قسم کی شکلوں کو بہادری اور استقلال کے ساتھ برداشت کرنے میں شاید ہی کوئی مسلمان عورت ان کے مقابلہ کی نکل سکے''

                                           (ص-176-خواتین ہند کے تاریخی کارنامے۔فضل حق عظیم آبادی)


13 اپریل 1914 ء میں حسرت دوسری بار گرفتار کئے گئے نشاط النساء بیگم کی زندگی میں یہ تاریخ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ہی ان کی سیاسی زندگی 'عملی زندگی کا آغاز ہے جب انھوں نے گھر کی چار دیواری سے نکل کر حسرت کے مقدمے کی پیروی اپنے ذمہ لی اور یہ کام انتہائی اور بڑی دلیری اور اہمیت سے انجام دیا۔ان کے زندگی کا یہی وہ دور ہے جب انھوں نے معاشرے کی مخالفت کے باوجود پردہ ترک کیا۔وہ چہرہ کھول کر نہایت سادہ لیکن پردہ پوش لباس میں باہر آئیں اور کسی کی پرواہ نہ کرتیں۔

نشاط النساء بیگم تمام تراجم سیاسی سر گرمیوں کے پس پشت محض ایک جذبہ رفاقت تھا جدو جہد آزادی میں ان کی عظیم الشان خدمات کا مناسب اعتراف نہ ہوگا۔اس میں شک نہیں ہے ان کے سیاسی شعور کا آغاز اور ارتقاء حسرت کی معیت میں ہوا۔

نشاط النساء بیگم کی سیاسی سر گرمیاں محض حسرت کے مقدمات کی پیروی تک رہی محدود نہ تھیں حسرت کے ساتھ ہت اہم سیاسی اجلاس میں ان کی شرکت اور اس کے لئے بے سرو سامانی کی حالت میں بھی دوردراز کے سفر کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی برداشت کرنا۔سودیشی تحریک کو مقبول بنانے کی انتھک جدوجہد کل ہند زنانہ کانفرنس میں شرکت ہم خیال سیاسی رہنماؤں سے خط و خطابت قومی اخبارات سے مسلسل ربط اور کل ہند زنانہ وفد میں مسز بینٹ وسروجنی نائیڈو وغیرہ کے ساتھ ان کی شمولیت جو قومی سطح پر ان کی منفرد حیثیت کی واضع نشاندہی ہے۔

بیگم حسرت کی جرات و اہمیت کی صفات ان کی کارکردگی کی اہلیت وصلاحیت اور ملک کی آزادی کی خاطر جدوجہد کا تجزیہ اگر ہم اس زمانے کے مسلم معاشرے کے پس منظر میں کریں تو ان کے کارناموں کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

سیاست داں خواتین کے مقابلے میں نشاط النساء بیگم ایک متوسط درجے کے خاندان کی فرد تھیں ذوق سیاسی کی ملک تھیں اور اپنی سیرت اور عمل سے اپنا سیاست داں ہونا ثابت کیا تھا حسرت سے ان کی شادی 14 یا 15 برس کی ایک شرمیلی سی مشرقی لڑکی سے ہوئی۔کوئی اہم و مصیبت ایسی نہ تھی جو حسرت پر آئی ہو اور نشاط النساء نے اسے آگے بڑھ کر یہ نشاط خاطر نہ اٹھا لیا ہو انھوں نے حسرت کے ساتھ مل کر پریس چلایا 'رسالہ نکالا سودیشی اسٹور میں بیٹھ کر دکان داری کی' نمایش میں اسٹال لگایا۔وہ جیل گئے تو ان کے مقدمات کی پیروی کی جیل میں ان کے آرام اور مطالعے کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا بندوبست کیا وکیلوں کا انتظام کیا۔ان کی رہائی کے لئے تحریکیں چلائیں۔خواتین میں تعلیم کے فروغ کی تحریک میں حصہ لیا۔متعد زنانہ کانفرنسوں میں شرکت کی۔حسرت کے شانہ بشانہ جلوس کی قیادت کی۔انھیں ثابت قدم رہنے کی تلقین کی۔حسرت کی قید و بند کے زمانے میں خود انتہائی تکلیف اٹھائی لیکن حسرت پر اپنی تکلیف اور غم کی پرچھائیں بھی نہ پڑنے دی۔ ان کی محبت نے حسرت کو ہمیشہ اور زندگی کے ہر مرحلے میں ولولہ تازہ عطا کیا۔

ان میں عملی صلاحیتوں ہی فرادانی نہ تھی۔وہ ذہنی و دماغی قابلیتوں اور فکری صلاحیتوں کی بھی مالک تھیں۔ملکی سیاست پر ان کی نظر تھی ادب کا اچھا ذوق رکھتی تھیں۔حسرت کی شاعری کے مرموزاتو محاکات کو خوب سمجھتی تھی۔زندگی کے مصائب نے انھیں اپنے آپ سے بے گانہ اور اپنی زینت وارائش سے بے پروا کردیا تھا۔حسرت کا تغزل تمام تر نشاط النساء کی والہانہ محبت کا عطیہ تھا۔نشاط النساء نے شریک حیات کے لفظوں کو معنی سے آشنا اور ان کی عزت وقار میں اضافہ کیا تھا وہ واقعی حسرت کی رفیق زندگی تھیں اور معاون 'ہم نوا اور مشیر بھی اور جذبہ حب الوطنی میں وہ حسرت سے کسی طرح کم نہ تھیں۔

ایسی خاتون جس نے گھر کے صحن سے لے کر قومی زندگی کے مختلف میدانوں تک اپنی فطرت کی بلندی' سیرت کی پختگی اور عمل میں استقامت اور ذوق سلیم کے گہرے نقوش چھوڑ دے ہوں جو کسی شخص کی صرف شریک حیات ہی نہ رہی ہو بلکہ ہر دائرہ فکر و عمل میں اپنی مستقل حیثیت رکھتی ہو اور صنف نازک دے تعلق رکھنے کے باوجود جس نے بہادری' پامردی بے خوفی 'اور حق گوئی کی مثالیں قائم کی ہوں اور آزمائش کی کسی گھڑی میں اس کے پاے ثبات کو لغریش نہ ہوئی ہو۔

      کل ہند زنانہ کانفرنس میں ان کا رول بے حد اہم تھا انفرادی حیثیت سے بھی اور مولانا حسرت موہانی کے ساتھ جنگ آزادی میں وہ ہر قدم پر مولانا کے ساتھ رہیں۔حسرت موہانی قانون تحفظ ہنر کے تحت گرفتار لئے گئے تھے تو ایک خط کے ذریعہ نشاط النساء بیگم نے مولانا عبدالباری کو لکھا

 ''خدا حسرت کی ہمت اور حوصلے کو بلند کرے۔انھیں کامیاب کرے دیکھئے کیا ہوتا ہے؟ اگر خدائی نہ کرے قید ہوئے تو مجھے بھی صبر کرنا چاہیے اور خدا ست دعا کرنا چاہیے کہ مجھے اتنی قوت قدرت کا صلہ عطا کرے کہ کسی بھی صورت ظالموں سے حسرت کے ساتھ بے جا ظلم کا انتقام لے سکوں چاہے مجھے بھی قید یا پھانسی کیوں نہ ہوجائے ''(ص-112-113)

دسمبر 1922ء میں کانگریس اجلاس کے وقت گاندھی جی اور حسرت موہانی دونوں جیل میں تھے نشاط النساء بیگم اجلاس میں شامل ہوئیں۔اس اجلاس میں ترک مولات گی مخالفت اور کاؤ نسلوں میں شرکت کے سوال پر بحث ہوئی۔نشاط النساء نے اپنی تقریر میں کہا 

'' جو لوگ مکمل آزادی کے خواہاں ہیں وہ اس پروگرام کو ترک نہیں کرسکتے۔جو لوگ جزوی آزادی چاہتے ہیں وہ کاؤ نسلوں میں آئینی اصلاحات کی قسط وصول کرسکتے ہیں '' (ص۔ 113)


شاط النساء بیگم ایک بہ ہمت خاتون تھیں 1917 ء میں جب لاڈ مانٹیکو ہندوستان آئے تو ہر وفد کو مطلع کردیا گیا کہ آزادی کے سلسلے میں اور نظر بند کئے گئے لوگوں کے تعلق سے کوئی سوال نہ اٹھائیں۔نہ ہی کوئی کاغذ پیش کریں. نشاط النساء بیگم نے ہدایت یکسر نظر انداز کرتے ہوئے نہایت جرات سے کام لے کر وزیر ہند سے کہا ''جب آپ نے آئر لینڈ کے باغیوں کو رہا کردیا ہے تو پھر ہندوستان کی آزادی کے خواہاں نظر بند انقلابیوں کو بھی آزاد کردیجئے''

نشاط النساء بیگم کی دلیری کی سب نے تعریف کی آزادی کی متوالی اپنی بہن کی خدمت میں لوگوں نے مبارکباد پیش کی۔

آفریں باد برایں ہمت مردانہ تو۔

نشاط النساء بیگم حسرت موہانی کے پریس میں پیپر مین کی خدمات بھی انجام دیتی تھیں وہ جنگ آزادی میں ہر قدم ہر پل شوہر کے ساتھ رہیں۔کشن پرساد کول نے ان کے متعلق لکھا:

''بیگم حسرت میں وطن پرستی اتنی ہی تھی جتنی حسرت میں تھی۔ان کی حیثیت جدوجہد آزادی کے متوالوں میں منفرد تھی ان کا دماغ بمقابلہ حسرت سے زیادہ سلجھا ہوا تھا حسرت کی صحبت نے اس میں چار چاند لگادئے تھے'' (ص-114)۔

مولانا آزاد نشاط النساء بیگم کو حسرت کی کوہ عزم و ثبات بیوی'' کہہ کر پکارتے تھے1937 ء میں نشاط النساء بیگم کا انتقال ہوا۔بحر کیف نشاط النساء بیگم قومی جنگ آزادی میں قربانیوں کے پس پشت جذبہ رفاقت و جذبہ حب الوطنی دونوں ہی مساوی طور پر کارفرما تھیں۔


تحریک آزادی میں خواتین کی شرکت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس زمانے میں ان کے مجاہد شوہر جیلوں میں چکی کی مشقیں برداشت کیا کرتے تو ان کی ہمدم و ہمساز رفقائے حیات گھروں کا انتظام ہی نہیں سنبھالتی تھیں بلکہ ہر طرح کی معاشی سختیوں ذہنی الجھنوں اور دیگر پریشانیوں کے باوجود اپنے شوہروں کے حوصلے بڑھاتیں اور دوسرے ایران آزادی کے خاندانوں کی بھی دیکھ بھال کرتی تھیں۔سخت سے سخت آزمائش میں بھی کبھی کوئی شکوہ ان کے لبوں پر نہیں آیا ایسی ہی بلند خواتین میں زلیخا بیگم آزاد کا نام بھی سر فہرست آتا ہے۔

مولانا آزاد کی شادی زلیخا بیگم سے ہوئی تو وہ بارہ سال کے معصوم لڑکے تھے زلیخا بیگم چھ سال کی ننھی منی بچی تھیں ان کے والد آفتاب الدین صاحب بغداد کے ایک شریف خاندان کے چشم و چراغ تھے ان کا سلسلہ نسب حضرت صدیق اکبر سے جا ملتا ہے۔آفتاب الدین صاحب مولانا کے والد بزرگوں کے خاص مریدوں میں تھے زلیخا بیگم ان کی پانچویں صاحبزادی تھیں ان کے پیدا ہوتے ہی انہوں نے پیر کے قدموں پر لاکر ڈال دیا. انہوں نے بہت محبت سے اس حسین پیاری بچی کو گود میں لیا اور ذلیخا نام رکھا بعد میں موہنی صورت والی بچی ان کو اتنی اچھی لگی کہ اس کو انہوں نے اپنی بہو بنا لیا۔چھ سال کی بالی عمر میں زلیخا بیگم بیاہ کر آئیں اور شباب کی منزل میں قدم رکھتے ہی وہ اس عظیم انسان کی پرستش کرنے لگیں مولانا کے ہر خیال کو انہوں نے سر آنکھوں پر رکھا۔

ہجر کی سختیاں بھی سہی اور مالی سختیاں بھی مگر لب پر کبھی اف تک نہ لائیں مولانا آزاد کی مالی حالت سیاسی جدوجہد میں حصہ لینے کی وجہ سے کبھی بھی اچھی نہیں رہی۔ان تمام تکالیف کو محبت اور سکون سے برداشت کرتی جو شوہر کی جدائی اور مالی پریشانی کی وجہ سے اس پر گزرتیں۔زلیخا بیگم کا زیادہ وقت یاد الہی اور مولانا آزاد کی کامیابی کی دعاؤں میں گزرتا۔

تحریک آزادی میں خواتین کی شرکت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس زمانے میں ان کے مجاہد شوہر جیلوں میں چکی کی مشقیں برداشت کیا کرتے تو ان کی ہمدم و ہمساز رفقائے حیات گھروں کا انتظام ہی نہیں سنبھالتی تھیں بلکہ ہر طرح کی معاشی سختیوں ذہنی الجھنوں اور دیگر پریشانیوں کے باوجود اپنے شوہروں کے حوصلے بڑھاتیں اور دوسرے ایران آزادی کے خاندانوں کی بھی دیکھ بھال کرتی تھیں۔سخت سے سخت آزمائش میں بھی کبھی کوئی شکوہ ان کے لبوں پر نہیں آیا ایسی ہی بلند خواتین میں زلیخا بیگم آزاد کا نام بھی سر فہرست آتا ہے۔

مولانا آزاد کی شادی زلیخا بیگم سے ہوئی تو وہ بارہ سال کے معصوم لڑکے تھے زلیخا بیگم چھ سال کی ننھی منی بچی تھیں ان کے والد آفتاب الدین صاحب بغداد کے ایک شریف خاندان کے چشم و چراغ تھے ان کا سلسلہ نسب حضرت صدیق اکبر سے جا ملتا ہے۔آفتاب الدین صاحب مولانا کے والد بزرگوں کے خاص مریدوں میں تھے زلیخا بیگم ان کی پانچویں صاحبزادی تھیں ان کے پیدا ہوتے ہی انہوں نے پیر کے قدموں پر لاکر ڈال دیا۔انہوں نے بہت محبت سے اس حسین پیاری بچی کو گود میں لیا اور ذلیخا نام رکھا بعد میں موہنی صورت والی بچی ان کو اتنی اچھی لگی کہ اس کو انہوں نے اپنی بہو بنا لیا۔چھ سال کی بالی عمر میں زلیخا بیگم بیاہ کر آئیں اور شباب کی منزل میں قدم رکھتے ہی وہ اس عظیم انسان کی پرستش کرنے لگیں مولانا کے ہر خیال کو انہوں نے سر آنکھوں پر رکھا۔

ہجر کی سختیاں بھی سہی اور مالی سختیاں بھی مگر لب پر کبھی اف تک نہ لائیں مولانا آزاد کی مالی حالت سیاسی جدوجہد میں حصہ لینے کی وجہ سے کبھی بھی اچھی نہیں رہی۔ان تمام تکالیف کو محبت اور سکون سے برداشت کرتی جو شوہر کی جدائی اور مالی پریشانی کی وجہ سے اس پر گزرتیں۔زلیخا بیگم کا زیادہ وقت یاد الہی اور مولانا آزاد کی کامیابی کی دعاؤں میں گزرتا۔

     تحریک آزادی میں خواتین کی شرکت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس زمانے میں ان کے مجاہد شوہر جیلوں میں چکی کی مشقیں برداشت کیا کرتے تو ان کی ہمدم و ہمساز رفقائے حیات گھروں کا انتظام ہی نہیں سنبھالتی تھیں بلکہ ہر طرح کی معاشی سختیوں ذہنی الجھنوں اور دیگر پریشانیوں کے باوجود اپنے شوہروں کے حوصلے بڑھاتیں اور دوسرے ایران آزادی کے خاندانوں کی بھی دیکھ بھال کرتی تھیں۔سخت سے سخت آزمائش میں بھی کبھی کوئی شکوہ ان کے لبوں پر نہی آیا ایسی ہی بلند خواتین میں زلیخا بیگم آزاد کا نام بھی سر فہرست آتا ہے۔

مولانا آزاد کی شادی زلیخا بیگم سے ہوئی تو وہ بارہ سال کے معصوم لڑکے تھے زلیخا بیگم چھ سال کی ننھی منی بچی تھیں ان کے والد آفتاب الدین صاحب بغداد کے ایک شریف خاندان کے چشم و چراغ تھے ان کا سلسلہ نسب حضرت صدیق اکبر سے جا ملتا ہے۔آفتاب الدین صاحب مولانا کے والد بزرگوں کے خاص مریدوں میں تھے زلیخا بیگم ان کی پانچویں صاحبزادی تھیں ان کے پیدا ہوتے ہی انہوں نے پیر کے قدموں پر لاکر ڈال دیا۔انہوں نے بہت محبت سے اس حسین پیاری بچی کو گود میں لیا اور ذلیخا نام رکھا بعد میں موہنی صورت والی بچی ان کو اتنی اچھی لگی کہ اس کو انہوں نے اپنی بہو بنا لیا۔چھ سال کی بالی عمر میں زلیخا بیگم بیاہ کر آئیں اور شباب کی منزل میں قدم رکھتے ہی وہ اس عظیم انسان کی پرستش کرنے لگیں مولانا کے ہر خیال کو انہوں نے سر آنکھوں پر رکھا۔


ہجر کی سختیاں بھی سہی اور مالی سختیاں بھی مگر لب پر کبھی اف تک نہ لائیں مولانا آزاد کی مالی حالت سیاسی جدوجہد میں حصہ لینے کی وجہ سے کبھی بھی

 اچھی نہیں رہی. ان تمام تکالیف کو محبت اور سکون سے برداشت کرتی جو شوہر کی جدائی اور مالی پریشانی کی وجہ سے اس پر گزرتیں۔زلیخا بیگم کا زیادہ وقت یاد الہی اور مولانا آزاد کی کامیابی کی دعاؤں میں گزرتا۔

 امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی شریک حیات زلیخا بیگم نے جنگ آزادی میں ہر قدم پر اپنے شوہر کا ساتھ دیا اور اپنے گھر کو بھی سنبھالا۔زلیخا بیگم نے مکمل طور پر خود کو شوہر کے خیالات کے سانچے میں ڈھال لیا تھا۔

مولانا آزاد کو حکومت نے ایک سال کی قید کی سزا دی تو زلیخا بیگم نے ان کے تمام کام سنبھال لئے گاندھی جی کو انھوں نے تار میں لکھا۔

''انھیں (مولانا آزاد) صرف ایک سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔نہایت تعجب طور پر یہ اس سزا سے کم ہے جس کے لئے ہم تیار تھے۔اس معاملے میں ان سے نا انصافی برتی گئی ہے اگر قید کی سزا قومی خدمات کا معاوضہ ہے تو یہ سزا کم سے کم بھی نہیں جس کے وہ مستحق تھے۔میں آپ کو اطلاع دے رہی ہوں کہ اس وقت مولانا کے جیل جانے سے جو جگہ خالی ہوئی ہے۔اس کے لئے میں نے اپنی نا چیز خدمات پیش کردی ہیں۔وہ تمام کام بد ستور جارہی رہیں گے جو مولانا کی موجودگی میں انجام پاتے تھے.۔گو میرے لئے یہ عظیم ذمداری ہے مگر میں خدا سے مدد کی پوری پوری امید رکھتی ہوں '' (ص-119-ہندوستان کی جنگ آزادی میں خواتین)

زلیخا بیگم نے نہ اچھا کھانے و پینے کی شکایت کی اور نہ کبھی اپنی پریشانیوں کا تذکرہ کیا بلکہ ہر طرح محبوب شوہر کو آرام پہنچانے میں لگی رہیں تاکہ گھریلو فضاء کے خوشگوار ماحول میں تازہ دم ہو کر وہ نئے ولولے اور جوش سے جنگ آزادی کے تقاضوں کو پورا کرسکیں۔یہی نہیں انھوں نے مولانا کے سیاسی عقائد و افکار کو بھی مکمل طور پر اپنا لیا تھا۔مولانا آزاد ہی کی زبان میں ''زلیخا بیگم نے پوری کوشش کی کہ میری زندگی کے حالات کا ساتھ دے. اس نے صرف ساتھ ہی نہی دیا بلکہ پوری ہمت و استقامت سے ہر طرح کے نا خوشگوار حالات برداشت کئے۔ وہ دماغی حیثیت سے میرے افکار و عقائد میں شریک تھی اور عملی زندگی میں رفیق و مددگار'' (ص-164-165ایضا)

      بالآخر 19 اپریل 1943 ء کو زلیخا بیگم ان کے دیدار کی حسرت ہی لئے اس دارفانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئیں۔

پورے ملک میں زلیخا بیگم کی اس المناک موت پر ماتم کیا گیا اور سامراجی حکومت کے ظلم وہ استعداد پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔جس نے مولانا کو اپنی شریک حیات کی خطرناک علالت کے باوجود بھی غیر مشروط رہائی دینا منظور نہی کیا۔یہاں تک کہ مسلم لیگ نے بھی مولانا کے سیاسی عقائد و نظریات سے سخت بیزاری کے باوجود کلکتہ میں تعزیتی جلسہ کیا۔

آزادی کی اس منزل کو پالینے میں زلیخا بیگم جیسے کتنے ہی پیکر مہرو وفا و خلوص و ایثار 'مادر وطن پر خاموشی سے پروانہ وار نثار ہوگئے آزاد ہندوستان کی تاریخ کیا کبھی ان کا شمار کرسکے گی؟ شائد کبھی نہیں۔

                                                     حواشی

1) شعلہ آزادی- نقی احمد ارشاد - 1998ء - خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ۔

2) تحریک آزادی ہند کے چند مجاہدین - ڈاکٹر عبدالعزیز عرفان - 2010ء - ام - انٹر پرائزیس - جونا بازار، اورنگ آباد۔

3) خواتین ہند کے تخلیقی جزیرے - علیم صبا نویدی - مرتب - پروفیسر سید سجاد حسین - 2013ء۔

4) ہند نامہ - بلد راج سود - 1965ء - جمال پرنٹنگ پریس، دہلی۔

5) شہیدانِ آزادی - ڈاکٹر پی - این - چوپڑا - 1998ء - لاہوتی پرنٹ ایڈز 'جامعہ مسجد' دہلی۔

6) قفس سے چمن تک (تحریک آزادی میں اردو کا حصہ) - ڈاکٹر سعید احمد - 2002 ء - سارنگ اسٹریٹ 'ممبئی۔

7) ہندوستان کی جنگ آزادی میں خواتین - ڈاکٹر بانو سرتاج - 2012ء - ایچ - ایس - آفسٹ پرنٹرز'دہلی۔

8) خواتین ہندو کے تاریخی کارنامے - فضل حق عظیم آبادی - 1998ء - منور پرنٹنگ پریس 'سبزی باغ - پٹنہ۔

9) جنرل بخت خان - محمود علی - 1998ء - جے - کے - آفیسٹ پریس 'دہلی۔

10) شان اودھ - بیگم حضرت محل - وسیم احمد سعید - 2006 ء - ایم - آر - پرنٹرز' دریا گنج' دہلی۔

11) ہندوستان کی آزادی اور مسلمانوں کی قربانیاں - زین العابدین خان - 2015-16- شوبی آفیسٹ پریس' دہلی۔

12) جنگ آزادی کے مجاہد کون - مرزا مرتضیٰ اقبال - اشاعت 2014 ء - جید پریس' سنبھلی گیٹ 'مرادآباد۔

13) ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ - ڈاکٹر عابدہ سمع الدین - 1990 ء - بڑتی آرٹ پریس (پراوئٹرز جامعہ ملیہ)' دہلی۔

14) نشاط النساء بیگم (بیگم حسرت موہانی) حیات و سیرت - پروفیسر سعید شفقت رضوی - 1994 ء - المغزن پرنٹرز (مکتبہ رشیدیہ) پاکستان چوک' کراچی۔

15) آزادی ہند - رائس جعفری - شاہ اینڈ سنز پرنٹرز 'لاہور۔

16) لکھنو - نظارہ - فہرست مضامین بیگم حضرت محل جلد 33 - 1962 ء - فضل نقویا۔

 17). نظارہ ہفتہ وار - بیگم حضرت محل - صد سالہ یاد گار جلد 50 - 1979 ء 

فضل نقوی۔

Post a Comment

0 Comments