قارئین !ہمارے شہرمالیگاؤں میں مجلس نکاح عموماً صبح گیارہ بجے رکھی جاتی ہے۔دیکھا یہ گیا ہے کہ اگر پانچ سو افراد کو دعوت دی گئی ہو تو محض سو دیڑھ سو افراد مجلس نکاح میں حاضر ہوتے ہیں ،اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں:
(۱)اکثرافراد صبح کے وقت آرام کرتے ہیں ، ان کے لیے بیدار ہو کر مجلس نکاح میں پہنچنا دشوار ہوتا ہے۔جو لوگ بیدار ہوتے ہیں عام طریقے پر اپنے کاروبار اور ملازمت میں مشغول رہتے ہیں بطور خاص تعلیم یافتہ طبقہ اس وقت اسکولوں اور مدرسوں میں مشغول رہتا ہے،اس طبقے کے لیے چھٹی لے کر مجلس نکاح میں حاضر ہونا اس لیے بھی دشوار ہوتا ہے کہ اس سے طلبہ کا تعلیمی نقصان ہوتا ہے۔
(۲)عام طریقے پر صبح کے وقت مجلس نکاح اپنے مقررہ وقت پر منعقد نہیں ہوتی ،دس یا گیارہ بجے کا وقت دعوت ناموں پر درج ہوتا ہے لیکن آدھا ایک گھنٹہ کی تاخیر سے ہی نوشہ میاں مسجد میں پہنچتے ہیں ۔اگر بارات بیرون شہر سے آرہی ہوتو دودو گھنٹے کی تاخیر ہوجاتی ہے یہاں تک کہ بعض جگہوں پر گیارہ بجے ہونے والی نکاح کی مجلس ظہر کی نماز کے بعد منعقد ہوئی ہے ۔انتظار کی زحمت اور کاموں میں ہونے والے حرج کی وجہ سے بہت سارے افراد چاہت کے باوجود نکاح کی مجلس میں حاضر نہیں ہوپاتے اور جو حاضر ہوتے ہیں ان کے لیے بڑی مشقت ہوتی ہے، بطورخاص نکاح پڑھانے والے علمائے کرام اور ائمہ مساجد کا بڑاحرج ہوتاہے جوصبح اوردوپہر کے اوقات میں مدارس اورمکاتب میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔اس لیے میری تجویز یہ ہے کہ اگر گیاہ بجے کے بجائے ظہر کی نماز کے فوراً بعد مسجد میں مجلس نکاح رکھ لی جائے تو انتظار کی زحمت سے بچنا ممکن ہوگاا ور بڑی تعداد میں لوگ ایسی مجلس میں شریک ہوسکیں گے۔اس لیے کہ دعوت طعام میں لوگ ظہر کی نماز کےفوراً بعد حاضر ہوتے ہیں ۔جب انہیں معلوم ہوگا کہ نکاح کی مجلس ظہر کے بعد ہے تو وہ شوق سے مجلس نکاح میں حاضر ہوں گے ۔یوں بھی ہمارے شہر میں اب دعوت طعام کا آغاز دو بجے ہی ممکن ہوتا ہے،شہر کی بیشتر مساجد میں ظہر کی نماز سوا بجے یا ڈیڑھ بجے ہے۔اس لیے صبح کے وقت مجلس نکاح رکھنے کے بجائے ظہر کی نماز کے فوراً بعد رکھ لی جائے تو اس میں تمام لوگوں کے لیے بڑی آسانیاں ہوں گی ۔
زیادہ بہتر اور مناسب تو یہ ہے کہ عصر کی نماز کے فوراً بعد مجلس نکاح منعقد کی جائے ۔ یوں بھی جمعہ کے دن عصر کے بعد مجلسِ نکاح کا انعقاد مستحب ہے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ عصر کے بعد نکاح کی جو مجلس منعقد ہوتی ہے اس میں اکثر افراد سہولت کے ساتھ شریک ہوجاتے ہیں۔موجودہ وقت میں جب کہ مشاغل کی کثرت اور کاموں کی الجھنوں کی باعث مجلس نکاح اور نماز جنازہ میں لوگوں کی شرکت کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ گرچہ نکاح کی مجلس کسی بھی وقت رکھی جاسکتی ہے، لیکن ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ہم عام لوگوں بطور خاص ائمہ مساجد کو انتظار کی زحمت سے بچائیں اور ان کے لیےسہولت اور آسانیاں پیدا کریں۔حدیث نبوی ہے کہ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو اور مشکلات کھڑی نہ کرو۔مجھے امید ہے کہ اہلیان شہر بطور خاص سماج کے سرکردہ افراد اور اہلکار حضرات اس سلسلے میں توجہ دیں گے ۔
٭…٭…٭
0 Comments