اسانغنی مشتاق رفیقی
جیسے جیسے زمانہ گزرتا جارہا ہے انسانی سوچ اور فکر کا دائرہ بھی وسیع ہوتا جارہا ہے اور ساتھ میں کئی تبدیلیاں بھی واقع ہوتی جارہی ہیں۔ ارتقاء کے اس سفر میں انسانوں پر علم کے ایسے ایسے در وا ہورہے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ زمینی پتھروں کے ساتھ شروع ہوئی انسانی زندگی آج خلاؤں کو تسخیر کر چکی ہے اور نئے سیاروں کی تلاش میں آسمانوں میں شگاف ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں غذا کی تلاش میں بھٹکنے والا اور اس کے غاروں میں قدرت کے سرد و گرم سے بچنے کے لئے سر چھپانے والا انسان آج پہاڑ جیسی عمارتیں بنوا کر ان میں زندگی کو آسان بنانے والی ہر چیز مہیا کرا کر گویا ترقی کی معراج پر پہنچ چکا ہے۔ پیر کے چھالوں سے شروع ہوا اس کا سفر جانوروں کی پشت سے ہوتا ہوا آج ایسے ایسے واہن ایجاد کر چکا ہے جو وقت کی رفتار کو شرما رہے ہیں۔ پتھروں، پتوں اور جانوروں کے چمڑے پر اپنے علم کو محفوظ رکھتے رکھتے آج وہ اس قابل ہوچکا ہے کہ دھات کے اپنے پور اتنے ایک چھوٹے سے ٹکڑے(چپ) میں علم کا ایک سمندر محفوظ کرلے۔ لیکن ان سب کے باوجود اگر روش سے ہٹ کر غور کریں تو لگتا ہے آج کا یہ نام نہاد ترقی یافتہ انسان کئی اعتبار سے پتھر کے دور میں ہی جی رہا ہے۔ اس کی سوچ اور فکر میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے اس سے اسکی مادی زندگی تو آسان ہوگئی ہے لیکن روحانی زندگی کی سوئی وہیں پر اٹکی ہوئی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ اخلاقیات کا بنیادی سبق یاد رکھنے میں آج بھی وہ اتنا ہی کچا ہے جتنا اپنے بے سر وسامانی والے دور میں تھا۔
بظاہر یہ بات عجیب لگتی ہے کہ روشنی کی رفتار کے ساتھ خلاؤں میں جھانکنے والا انسان اپنے پڑوس میں بسنے والے اپنے ہی جیسے انسانوں سے ناواقف ہو اپنے دستر خوان پر دنیا بھر کی نعمتیں سجا کر اس سے لطف اندوز ہونے والے کو یہ خبر ہی نہ ہو کہ اس کی دیوار کے سائے میں اس جیسا ہی کوئی انسان بھوک سے بے حال پڑا ہے، لیکن ایسا ہورہا ہے۔ بے پناہ مادی ترقی لئے ایک گاؤں میں تبدیل ہوچکی آج کی اس دنیا میں انسان جتنا ایک دوسرے سے غافل اور آپسی بغض وعناد کا شکار ہو کر زندگی گزار رہا ہے اتنا شاید کبھی رہا ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ اس کے پاس ایک دوسرے کے بارے میں معلومات کی کمی ہے بلکہ بات دلوں میں پیدا ہوچکی تنگی اور اُکتاہٹ کی ہے جس کی وجہ سے پاس رہتے ہوئے بھی دوریاں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ کسی کو کسی کی ذرا سی بھی فکر ہی نہیں ہے۔ رات دن انسانیت کی دہائی دینے والے بھی اکثر اپنے کسی مطلب اور غرض کی وجہ سے ہی ایسا کرتے ہیں اور ممکن حد تک اپنی محنت کا ثمرہ مادی شکل میں حاصل کرنا ہی ان کا مقصود ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نام نہاد ترقی یافتہ آج کے دور میں انسانیت کو شرمسار کرنے والے کچھ نہ کچھ واقعات روز بروز وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ روحانی تشنگی رکھنے والوں کو کہیں مذہب کے نام پر ٹھگا جارہا ہے تو کہیں مادیت کے حصول میں سرگرداں لوگوں کو دولت کا خواب دکھا کر بے وقوف بنایا جارہا ہے اور یہ سب ان نام نہاد دانشوروں، عالموں اور رہنماؤں کے ہاتھوں ہورہا ہے جنہیں دعوٰی ہے کہ وہ انسانوں کو ہر میدان میں ترقی کی معراج پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ دانشوروں، عالموں اور رہنماؤں کا یہ گروہ ترسیل وابلاغ کا ہر وہ ذریعہ استعمال کررہا ہے جس سے اس کو اپنے مقصد کے حصول میں آسانی ہو اور وہ مقصد بس اتنا ہے کہ کسی بھی طرح ان کی دولت و شہرت میں اضافہ ہوتا رہے۔
اس سارے منظر نامے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ انسانوں کا وہ طبقہ جس کا دعویٰ ہے کہ وہ قیامت تک کے آنے والے انسانوں کا رہنما ہے اور اس کے پاس کتاب ہدی کی شکل میں وہ نسخہء کیمیا ہے جس میں بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کر کے انسان نہ صرف روحانی تندرستی حاصل کر سکتا ہے بلکہ اس کی مادی منفعت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوسکتا ہے، خود خواب غفلت میں پڑا چھوٹی چھوٹی لایعنی بحثوں میں مبتلا ہو کر اپنا فرض منصبی بھول چکا ہے۔ روحانی تشنگی میں مبتلا العطش العطش چلاتی انسانیت کو سیراب کرانا تو دور وہ خود گروہوں میں بٹ کر آپسی سر پھٹول میں مشغول ہے۔ سچ پوچھیں تو باپ کے جنازے میں شریک ہونے پر محض اس وجہ سے کہ کلمہ گو باپ کا مسلک کچھ اور تھا، اس کی اولادوں کو پھر سے کلمہ پڑھوا کر نکاح کی بھی تجدید کرانے والوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ اپنا فرض منصبی پہچان کر انسانیت کی بھلائی کے لئے آگے آئیں گے حماقت ہوگی۔
موجودہ دور حقیقت میں اپنی تمام تر ترقی اور بلندی کے باوجود جتنا مفلس نظر آرہا ہے اتنا کسی بھی زمانے میں نہیں تھا۔ مادیت کے اعتبار سے آسماںوں پر اور روحانی اعتبار سے پاتال سے بھی نیچے پہنچ چکی انسانیت کے درد کا درماں اب ایک ایسا خواب بنتا جارہا ہے جس کی تعبیر شاید ہی کسی کے پاس ہو۔ کتاب ہدیٰ کے علمبردارو!! کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم اپنا فرض منصبی ادا کر نے کے لئے ہر قسم کی آپسی اختلافات سے اوپر اٹھ کر دکھی انسانیت کی مسیحائی کے لئے آگے آؤ اور گیسوئے گیتی سنوارنے میں جٹ جاؤ!!
اُٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں
نفَسِ سوختۂ شام و سحَر تازہ کریں
0 Comments