اسانغنی مشتاق رفیقیؔ
تعلیم کے میدان میں ضلع میں ہی پوری ریاست میں شہر وانمباڑی کئی اعتبار سے ایک سرخیلی حیثیت رکھتا ہے۔ سر سید احمد خان کی تحریک سے متاثر ہوکر پہل کرنے میں جہاں اس شہر کا نام نمایاں ہے وہیں دینی تعلیم اور فلاحی کاموں کے لئے بھی یہ شہر ایک الگ ہی پہچان رکھتا ہے۔
ریاست ٹمل ناڈو کے اس علاقے میں یوں تو مسلمانوں کی آبادی تقریبا ایک ہزار سال سے موجود ہے لیکن ان کی موجودگی کے ٹھوس تاریخی شواہد سولھویں صدی کے بعد ہی ملتے ہیں۔ سترھویں اور اٹھارویں صدی میں یہاں اردو زبان کی آمد ہوئی اور یہاں کے مسلمانوں کی یہ اولین ترجیحی زبان بن گئی۔ شہر وانم باڑی میں سب سے پہلا اردو تعلیمی ادارہ مدرسہء مفید عام قطب ویلور حضرت مکان کے مشورے کے ساتھ شروع کیا گیا۔ 1916ء میں شہر وانم باڑی میں کل ہند جنوبی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس منعقد ہوا تو اس میں ملک کے سر کردہ ماہرین تعلیم مثلا سر راس مسعود ، سر اکبر حیدری، بابائے اردو ڈاکٹر عبدالحق نے شرکت کی اور شہر کے ذمہ داروں کو تعلیمی ادارے کے قیام کے سلسلہ میں بیش قیمت تجاویزپیش کیا۔
مدرسہء مفید عام: شہر کا پہلا تعلیمی ادارہ مدیکار زین العابدین مرحوم نے مدرسہء مفید عام کے نام سے مسجد نیلی کھیت 1873ء میں قائم کیا، آج یہ مدرسہ، مفید عام ایجوکیشنل ٹرسٹ کے تحت مدرسہ ء مفید عام و نسوان کے نام سے جاری و ساری ہے۔
مدرسہء اعظم قلعہ: یہ مدرسہ بھی شہر کے قدیم عصری تعلیمی مدرسوں میں ایک ہے اس کی بنیاد چلمکار نطہر صاحب شیخ میراں صاحب نے 1886ء میں رکھی۔
مدرسہء ناصر السلام : مسجد قدیم سے متصل یہ مدرسہ بھی شہر کے قدیم مدارس میں سے ایک ہے شروعات اس کی ایک دینی مکتب کی حیثیت سے ہوئی تھی لیکن آج کل یہاں پرائمری لیول کی عصری تعلیم دی جاتی ہے۔
مدرسہ معدن العلوم : مدرسہ معدن العلوم شہر کا پہلا دینی مدرسہ ہے جس کاقیام 1888ء میں دو دینی شعور رکھنے والے مخیر حضرات مدیکار محمد غوث اور حاجی عبدالصمد صاحبان کی کوششوں اور مسلسل جدوجہد سے عمل میں آیا۔ آج یہ مدرسہ ریاست ٹمل ناڈو کے دینی مدارس میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے اور مستقل خدمت دین میں مشغول ہے۔
مدرسہء نسوان و انجمن خیر خواہ عام: انجمن خیر خواہ عام کے تحت چلنے والا یہ اپنی نوعیت کا اہم منفرد دینی تعلیمی ادارہ برائے خواتین ہے۔ انجمن خیر خواہ عام کا قیام 1904 میں عمل میں آیا اور اس کے تحت مدرسہء نسوان 1910 میں قائم کیا گیا۔ یہاں قیام و طعام کے سہولت کے ساتھ لڑکیوں کو دینی تعلیم مہیا کی جاتی ہے۔ انجمن خیر خواہ عام کے تحت اور بھی تعلیمی مراکز اور بہت سارے فلاحی کام انجام پاتے ہیں جن میں مدرسہء اصلاح البنات جعفر آباد، دارالمطالعہ اور کتب خانہ، انجمن کمپیوٹر اکیڈمی، انجمن میت خانہ معروف اور فعال ہیں۔
یتیم خانہ اہل اسلام وانم باڑی: شہر میں یتیموں کے لئے قائم ہونے والا یہ پہلا ادارہ ہے جہاں یتاماکو قیام و طعام کے سہولت کے ساتھ معقول عصری اور دینی تعلیم کا بھی انتظام ہے۔ اس ادارے کی شروعات 1908ء میں اسانغنی حاجی عبدالقدوس نے کی، چونکہ وہ لاولد تھے اس لئے اپنی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائداد ادارے کے لئے وقف کر دی اور اپنی موت تک ادارے کی نگرانی کرتے رہے۔ چیلپے الحاج محمد ابراھیم نے اس کار خیر میں ان کا بھر پور ساتھ دیا۔ ( افسوس آج یہ ادارہ موجودہ منتظمین کی غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہو کر بند پڑا ہوا ہے اور اپنےمقصد کے حصول میں ناکام ہے، صرف وہاں موجود مسجد میں نماز کا اہتمام باقی ہے۔)
خانقاہء شاکریہ ذکر خانہ شاکر آباد: حضرت گنڈو عبدالقادر شاکر نے جن کی پیدائش 1865 اور تاریخ وفات 1923 ہے، جو حضرت رشید احمد گنگوہی سے بعیت کر چکے تھے، اپنی زندگی میں حضرت شاہ عبدالوہابؒ بانی ء مدرسہ باقیات صالحات ویلور کے ارشاد پر دریائے پالار کے کنارے یہ خانقاہ تعمیر کی۔ سالکین آج بھی یہاں ہو کر مجالس ذکر منعقد کراتے رہتے ہیں۔
وانم باڑی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی: یہ ادارہ علاقے میں عصری تعلیم کے حوالے سے اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے۔ ایک طرف 1903ء میں مدرسہء اسلامیہ کے نام سے شروع ہوا اس کا تعلیمی سفر 1912ء ہائی اسکول اور 1976 ء میں ہائر سکینڈری اسکول 1957 ء میں لڑکیوں کے لئے اسلامیہ گرلز اسکول اور 1978 میں اسلامیہ گرلز ہائر سکینڈری اسکول کے ساتھ ہنوز جاری ہے تو دوسری طرف اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے 1919ء میں اسلامیہ کالج ،1984ء میں اسلامیہ انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، 1997ء میں اسلامیہ وومینس آرٹس اور سائنس کالج، کے ساتھ یہ ادارہ قوم و ملت کے نوجوان مرد و خواتین کو عصری تعلیم کے بام عروج پر لے جانے کے مسلسل کوشاں ہے۔
اسلامی بیت المال: یہ ادارہ شہر کے ضرورت مندوں کو بلا سودی قرض فراہم کرتا ہے۔ اس کا قیام 1972ء میں عمل میں آیا۔
انجمن خدام الاسلام وانم باڑی: یہ فلاحی ادارہ جو 1939ء میں ایک دارالمطالعہ قائم کر کے کیا گیا جسے 1947ء میں ایک لائبریری کی شکل دی گئی۔ نیکار محمد فضل الرحمن، گنڈو محمد فضل الرحمٰن اور ٹی ایم عبدالرحیم جیسے مخیر کتاب دوست صاحبان کی سر پرستی میں یہ ادارہ مسلسل ترقی کی شاہ راہ پر چلتے چلتے آج ایک کثیرکتابوں والی لائبریری اور دارالمطالعہ کی شکل میں کتاب دوستوں کو سیراب کرنے مصروف ہے۔ اس کے علاوہ بھی یہ ادارہ اور بہت ساری فلاحی اور تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
مجلس العلماء: شہر وانم باڑی کے علماء کرام کی پہلی تنظیم، جس کا قیام 1972 ء میں عمل میں آیا۔ الحاج سید شاہ سبغتہ اللہ بختیاریؒ اور الحاج حافظ ابو السعود احمد باقویؒ کی سرپرستی میں قائم ہوئی اس مجلس میں شہر کے تمام علماء کرام بحیثیت رکن شامل ہوئے اور آج بھی شہر کے علماء کرام اس سے پوری طرح منسلک ہیں۔ مجلس العلماء کے تحت ایک شرعی دارالقضاء بھی قائم ہے جہاں شہر کے مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والے خانگی خاص کر طلاق و خلاء کے مسائل موجودہ ناظم مجلس العلماء گورںمنٹ قاضی سید عبدالرحمٰن صاحب معدنی اور گنڈو مشتاق احمد معدنی کی نگرانی میں بحسن و خوبی حل کئے جاتے ہیں۔
انجمن رفاہ ملت: اس انجمن کا قیام 1974 میں سید پیراں صاحب کی تحریک اور ہٍمت افزائی سے ہوا، اس انجمن کے تحت ایک دارالمطالعہ قائم ہے اور یہ انجمن بہت ساری فلاحی خدمات سے بھی وابستہ ہے۔
مدرسہء فیض عام اور مدرسہ البنات: دونوں مدرسوں یعنی ایک لڑکوں کے لئے اور ایک لڑکیوں کے لئے کی بنیاد میر لپے عبدالسلام صاحب نے علاقے میں دینی و دنیوی علوم کو عام کرنے کے لئے رکھی۔ آج یہ دونوں مدارس بڑے ہی سلجھے ہوئے انداز میں اپنی بنیادی مقصد کی ترویج میں لگے ہوئے ہیں۔
مدرسہ ء دارالحفاظ : شیخ السلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے ہاتھوں اس مدرسہ کا افتتاح 1954ء میں عمل میں آیا۔ آلتور عبدالحمید ؒ کی سرپرستی میں قائم ہوا یہ مدرسہ شعبہ حفظ کے حوالے سے علاقے میں ایک اچھی پہچان رکھتا ہے۔
مدرسہ احیالعلوم: اس مدرسے کا قیام 1982 میں عمل میں آیا۔ حافظ عبدالواحد صاحب کی سرپرستی شروع ہوایہ مدرسہ جو شروعات میں شعبہء حفظ تک محدود تھا آج مفتی اقبال صاحب قاسمی کی نگرانی میں ایک مکمل مدرسہ کا روپ لے کر تشنگان علم دین کو سیراب کرنے میں مصروف ہے۔
دار العلوم ولی اللہ رحمانیہ : حضرت ولی رشادی ٹرسٹ کے تحت قائم اس مدرسہ کی بنیاد مفتی محمد رحمت اللہ معدنی قاسمی نے 2020ء میں رکھی ہے۔
یہ مدرسہ شہر کی ایک عظیم دینی شخصیت حضرت ولی اللہ رشادی قاسمی ؒ کی یاد میں قائم کیا گیا ہے۔
مدرسہء قادریہ و قادریہ ہائر سکینڈری اسکول: مدرسہء قادریہ و قادریہ ہائر سکینڈری اسکول شہر میں عصری تعلیم کے حوالے سے قابل اعتماد نام ہیں۔ قادریہ مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کی ما تحتی چلنے والے یہ دونوں تعلیم گاہیں، مدرسہء قادریہ و قادریہ ہائر سکینڈری اسکول کئی دہائیوں سے شہر کی تعلیمی سفر میں اپنا فعال کردار بخوبی ادا کرہے ہیں۔
ان تعلیم گاہوں کے علاوہ شہر کے ہر بڑے محلے میں ایک پرائمری لیول کا اور چند محلوں میں ہائی اسکول لیول تک کا اردو میڈیم سرکاری امدادی اسکول بھی قائم ہے جہاں سے کثیر تعداد میں طلباو طالبات فیض حاصل کرتے ہیں۔ان کے نام حسب ذیل ہیں: میونسپل مسلم گرلزاسکول بڑی پیٹ، میونسپل مسلم گرلزمڈل اسکول قلعہ، میونسپل مسلم گرلز مڈل اسکول قادر پیٹ، میونسپل مسلم بائز اسکول نیوٹاؤن، میونسپل مسلم گرلزمڈل اسکول بشیر آباد، میونسپل مسلم بائز پرائمری اسکول مسلم پور، پنچایت یونین اردو بائز پرائمری اسکول جعفر آباد، اور پنچایت یونین اردو گرلز پرایمری اسکول جعفر آباد۔
ان سب کے علاوہ شہر میں کئی ذاتی میٹریکولیشن اسکول بھی تعلیم کی حصول کو آسان بنانے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں جن میں کچھ معروف نام فاطمہ میٹریکولیشن اسکول، الھدی میٹریکولیشن اسکول، الہلال نرسری و پرائمری اسکول، فیض العام نرسری و پرائمری اسکول، دارالارقام پبلک اسکول، الرحمٰن نرسری و پرائمری اسکول،عائشہ نرسری و پرائمری اسکول، نیو کرسنٹ نرسری و پرائمری اسکول، احسن نرسری و پرائمری اسکول، صالحات نرسری و پرائمری اسکول،فلورنڈ نرسری و پرائمری اسکول، گیٹ وے پبلک اسکول، وژڈم پارک پری اسکول و انٹر نیشنل اسکول۔ ان اسکولوں کی ایک خصوصی بات یہ ہے کہ یہاں اردو زبان کی بنیادی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
جہاں تک اردو شعر و ادب کو پروان چڑھانے کی بات ہے شہر وانم باڑی میں تقریبا دو صدی سے اس کی مضبوط رویت دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہاں اپنے اپنے وقت میں اردو کے چوٹی کے شعراء جگر مراد آبادی، ماہر القادری اور حفیظ میرٹھی کی صدارت میں مشاعرے منعقد ہوچکے ہیں۔1966 کےبعد ایک انجمن کے تحت اردو ادب کو فروغ دینے کا احساس یہاں کے ادباء و شعرا ء میں پیدا ہوا۔ اس احساس کے 1967 میں عملی جامہ پہنایا گیا اور یوں بزم نو کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد شروع ہوا شہر کا ادبی سفر آج بھی پورے آب و تاب کے ساتھ ترقی کے نئے منازل کی جانب جاری ہے۔
بزم نو: بزم نو کا قیام 1967 میں عمل میں آیا۔ اس بزم کی شروعات ساحل رشید، سبیل عرفان، نور آفاق، بسمل کوثری، دادے شفیع اللہ اور کاکی الطاف حسین جیسے ادب نواز صاحبان کی کوششوں سے ہوئی اور جب 1968ء میں ڈاکٹر عبداللہ ذوقی نے اس کی سرپرستی قبول کر لی تو بزم کو گویا ایک استحکام مل گیا۔ اس بزم کے تحت تینتیس سال میں 336 طرحی مشاعرے منعقد ہوئے جو اپنے آپ میں ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ شاید ہی تسلسل اور اہتمام سے اردو دنیا میں اتنے طرحی مشاعرے کہیں منعقد ہوئے ہوں۔
فروغ ادب: دانش فرازی کی سرپرستی میں ان کے رفقاء کے ذریعے قائم کی گئی یہ بزم اپنے شروعاتی دور میں بہت فعال رہی۔ اس کے تحت کئی مشاعرے اور ادبی نشستیں منعقد ہوئیں اور ایک ادبی رسالہ بھی اسی نام سے جاری کیا گیا جو ایک عرصے تک وابستگان ادب کو متاثر کرتا رہا۔
وانم باڑی اردو اکیڈمی:اس ادبی ادارے کی بنیاد ڈکٹر جلال عرفان، پروفیسر وی رحمت اللہ، ن م نعیم، مستان وسیم اور گنڈو ریاض احمد نے رکھی۔ سالانہ بڑے پیمانے پر شاندار مشاعرے منعقد کرکے وانم باڑی اردو اکیڈمی نے اپنی ایک الگ ہی پہچان بنائی۔ 2011ء میں ڈاکٹر جی امتیاز باشاہ کی تحریک پر شہر کے تعلیم میدان سے وابستہ مشہور و معروف شخصیت کاکا محمد زبیر صاحب کے نام سے ہر سال شہر اور بیرون شہر کے قابل شخصیتوں کو سال کے آخری دن منعقد ہونے والے سالانہ مشاعرے میں ایوارڈ دینے کا سلسلہ خود کاکا محمد زبیر صاحب کے ہاتھوں شروع کیا گیا جو گزشتہ سال ان کے وفات تک جاری رہا۔
کاروان شعر و ادب: اس کے بانیئین میں پروفیسر انور کمال، حکیم محمد صالح، توحید راہی اور سید عبدالعزیز صاحبان کے نام آتے ہیں۔ ایک دہائی سے یہ بزم ہر سرد و گرم میں ماہانہ مشاعرہ منعقد کرنے کی اپنی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
بزم اردو ادب: ڈاکٹر جی امتیاز باشاہ، نمازی عبدالکریم عارف، اصلپے امتیاز اور اسانغنی مشتاق رفیقی اس کے بانی ممبران ہیں۔ اس بزم کے تحت بھی کئی ادبی محفلیں سج چکی ہیں۔
انجمن فروغ اردو : ڈاکٹر جی امتیاز باشاہ اور اسانغنی مشتاق رفیقی اس انجمن کے بانی رکن ہیں۔ اس انجمن کے تحت ہر سال یوم مادری زبان کے دن بڑے ہی شاندار پیمانے پر اردو میلے کا انعقاد ہوتا ہے جس میں شہر و بیرون شہر کے کئی سماجی تعلیمی ادبی اور فلاحی میدانوں سے وابستہ افراد کو ان کی خدمات کے اعتراف میں اعزاز دیا جاتا ہے۔ طلباء و طالبات کے درمیان ادبی مقابلے منعقد کرکے انہیں انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سیمینار،مشاعرہ اور محفل نعت و نغمہ خوانی بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔ یہ ایک روزہ ادبی میلہ کئی اعتبار سے شہر میں ادبی فضا کو بحال کرنے اور قابل فخر بنانےمیں کامیاب ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس انجمن کے تحت ہر ماہ کسی نہ کسی عنوان پر ادبی محفلیں سجتی رہتی ہیں۔
انجمن ریاض اردو: اس انجمن کی بنیاد ڈاکٹر پیش امام نثار احمد اور پی ایس عبدالباری مخلص نے رکھی ہے۔ اس کے تحت بھی محلہ بڑی پیٹ میں کئی مشاعرے منعقد ہوچکے ہیں۔
بزم شاکر: اس بزم کی شروعات الطاف حسین شاداب بے ڈھرک نے کی اور آج کل یہ بزم انہی کی سر پرستی میں رواں دواں ہے۔ ہر ماہ طرحی مشاعرے منعقد کرنا اس بزم کی ایک امتیازی خصوصیت ہے۔
ٹمل ناڈو اردو تحقیقی مرکز: ڈاکٹر جی امتیاز باشاہ اس مرکز کے بانی ہیں۔ اس مرکز کے تحت ایک لائبریری قائم ہے جہاں ٹمل ناڈو میں اردو ادب کے حوالے سے کئی نایاب کتابیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مرکز کی جانب سے ہر ماہ اردو ادب کی کسی مشہور و معروف شخصیت پر طلباء و طالبات کی محفلیں جس میں ادبی مقابلے کراکے انہیں انعامات سےنواز اجاتا ہے، سمینار اور شعری نشست منعقد ہوتے ہیں۔
ادارہء ادب اسلامی وانم باڑی: ادارہء ادب اسلامی ہند کی یہ وانم باڑی کی شاخ ہے۔ شہر میں اس کی تاریخ کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔ شہر میں ادب اسلامی کی مشہور شخصیت عتیق جاذب اور صحافی اکبر زاہد اس کے سرپرست رہ چکے ہیں۔ سماج میں صالح ادب کو پروان چڑھانا اس کی اولین ترجیحات میں سے ہیں۔ شہر وانم باڑی میں ہر ماہ اس کی ادبی اور شعری نشستیں آج کل اپنی ایک الگ ہی پہچان بنانے میں کامایب ہیں اور شعرا ء و ادباء پر اپنی چھاپ چھوڑ رہے ہیں۔ اسانغنی مشتاق رفیقی اس کے موجودہ صدر ہیں اور نمازی عبدالکریم عارف اس کے معتمد۔
صحافت کے حوالے سے بھی شہر وانمباڑی کا ایک شاندار ماضی رہا ہے۔ یہاں سے کئی ادبی اور سماجی سیاسی جرائد ،پندرہ روزہ اور ہفتہ وار شائع ہوتے رہے ہیں اور میدان صحافت میں یہاں کی کئی شخصیتوں نے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ موجودہ دور میں اکبر زاہد، پی ایس عبدالباری، ڈاکٹر جی امتیاز باشاہ، فیصل مسعود، مشتاق وانمی ،اسانغنی مشتاق رفیقی اور احسان احمد کے، میدان صحافت میں شہر کی کامیاب نمائندگی کر رہے ہیں۔
اکبر زاہد: ایک ہمہ گیر شخصیت، بیک وقت شاعر، افسانہ نگار، انشا پرداز اور صحافی کی حیثیت سے اپنی کامیاب پہچان رکھتے ہیں۔ اس دشت کی سیاحی مییں ان کا یہ سفر تقریبا نصف صدی طے کرچکا ہے اور ہنوز جاری ہے۔ سماجی اور تاریخی موضوعات پر ان کی کئی کتابیں منظر عام پر قبولیت کا درجہ پاچکی ہیں۔ سوشیل میڈیا یوٹیوب میں عرش چینل کے نام سے آپ کا ایک ادبی اور معلوماتی چینل بھی موجود ہے۔
پی ایس عبدالباری: شہر ایک عظیم مخلص شخصیت، قوم و ملت کا درد ہی ان کی پہچان ہے۔ ان کا ماہانہ رسالہ نشان منزل ان کی ہی نہیں شہر وانم باڑی کی بھی پہچان بن چکا ہے۔ تقریبا 25 سال سے بغیر ناغہ کے یہ رسالہ شہر اور اطراف و اکناف میں مفت تقسیم ہوتا ہے۔ آسان اردو میں رسالہ کے اندر معلومات کا ایک بیش بہا خزانہ چھپا کر دینے کا فن اگر کوئی سیکھنا چاہے تو وہ نشان منزل کے مدیر پی ایس عبدالباری سےسیکھ سکتا ہے۔
ڈاکٹر جی امتیاز باشاہ: بے باک صحافت کے لئے ایک عمدہ مثال۔ فروغ اردو کے نام سےایک ماہنامہ نکالتے رہے جس میں کے کئی شمارے اپنے موضوع پرتحقیقی صحافت کی دستاویز ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ادبی محفلیں منعقد کرنا آپ کی ایک خصوصی پہچان ہے۔ اردو چینل کے نام سے سوشیل میڈیا میں بھی آپ کی ایک مخصوص چھاپ علاقے میں معروف ہے۔ سر سید احمد خان، علامہ اقبال اور مولانا ابولکلام آزاد، معاصر غزل گو شعرا ء پر آپ کی مرتب کردہ کتابیں مقبول عام ہوچکی ہیں۔
فیصل مسعود: ایک عرصے تک روزنامہ راشٹریہ سہارا سے وابستہ رہے اور ایک سیاسی ماہنامہ ہمارا کارواں کئی ماہ شائع کرتے رہے۔ آپ کو بیک وقت ٹمل اور اردو صحافتی زبان میں خاصی مہارت ہے۔
مشتاق احمد وانمی: سوشیل میڈیا، فیس بک اور واٹس آپ میں سماجی اور مذہبی مسائل پر آپ کی بے باک تحریریں بہت ساروں کو متاثر کرتی ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبان میں آپ کی کتابیں خاص کر وانم باڑی کے حوالے سے شائع ہوچکی ہیں جو امیزان میں دستیاب ہیں۔ "وانم باڑی امیدوں اور ارمانوں کا شہر"، شہر وانم باڑی کی تہذیب و تمدن پر ایک شاندار کتاب آپ کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو وانم باڑی کی صحافتی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اسانغنی مشتاق رفیقی: پندرہ روزہ زبان خلق کے مدیر کی حیثیت سے شہر میں ایک خاص صحافتی پہچان بنانے میں کامیاب ہیں۔ سچائی اور بے باکی آپ کی ایسی صحافتی خصوصیات ہیں جس کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ملک کے کئی مشہوراردو پورٹیل میں آپ کے سیاسی سماجی اور مذہبی مسائل پر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ روزنامہ سالار کے علاوہ ملک کے کئی روزناموں میں بھی آپ کے سیاسی مضامین اکثر چھپتی رہتی ہیں۔ مشہور و معروف ہفت روزہ دعوت میں خبردر خبر کے عنوان سے آپ کا ایک کالم گزشتہ ایک سال سے مسلسل شائع ہورہا ہے۔
احسان احمد کے: شہر کے جواں عمر صحافی، ادب اسلامی کے مشہور و معروف شاعر عتیق احمد جاذب کے فرزند، رپورتاژ پیش کرنے میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ ہفت روزہ دعوت کے علاوہ زبان خلق اور نشان منزل میں بھی آپ کے رپورٹ شائع ہوتے رہتے ہیں۔
اپنی تعلیمی، سماجی ، فلاحی، ادبی اور صحافتی تاریخ اور ورثے کے ساتھ اہلیان شہر وانم باڑی کا یہ سفر آج بھی اسی شان و شوکت کے ساتھ ترقی کے منازل طے کررہا ہے جس طرح سے شروع سفر میں اس کی اُٹھان تھی۔
0 Comments