The global site tag (gtag.js) is now the Google tag. With this change, new and existing gtag.js installations will get new capabilities to help you do more, improve data quality, and adopt new features – all without additional code. پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا ! ایک وکیل کی ڈائری

پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا ! ایک وکیل کی ڈائری

 تاریخ پر تاریخ تو آپ نے سنا ہی ہوگا وکلاء تو روز ہی دیکھتے ہیں یہ ماجرہ


ایڈوکیٹ شاہد ندیم 


پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا

لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہوگئے


 سوچ رہاں اس شعر کے خالق اکبر الہ آبادی اور ان تمام لوگوں پر جو وکیلوں کی کھینچائی کرنے کے لیئے یہ شعر کہتے ہیں ممبئی ہائی کورٹ میں وکلاء برادری کی جانب سے ہتک عزت کا مقدمہ کردوں لیکن پھر ذہین میں آیا کہ اگر مقدمہ سماعت کے لیئے پیش ہی نہیں ہوا تو کیا ہوگا؟ محنت بھی ضائع ہوگی اور اچھی خاصی کھینچائی بھی کریں گے لوگ۔ 



ہائی کورٹ کو بائے پاس کرتے ہوئے اگر سپریم کورٹ چلا بھی گیا تو چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا فائل دیکھتے ہی شدیدغصے میں پہلے یہ کہیں گے”گو بامبے ہائی کورٹ یہاں ڈائرکٹ کیسے آگئے؟“ وہ تو ایسے پھٹکاریں گے جیسے میں راجدھانی ٹرین میں بلا ٹکٹ ہی گھس گیا ہوں۔ حال ہی میں انہوں نے بلند شہر کے شخص کو زبردست پھٹکار لگائی کہ وہ ہائی کورٹ جانے کی بجائے سپریم کورٹ ڈائرکٹ کیسے چلا آیا جس پر عرض گذار نے لاچارگی سے کہا کہ بلند شہر سے سپریم کورٹ نزدیک ہے اسی لیئے وہ ڈائرکٹ یہاں چلا آیا، حالانکہ سپریم کورٹ مقدمہ کی سماعت کرسکتی تھی اور ماضی قریب میں ڈائرکٹ سپریم کورٹ آنے والوں کی مقدمات کی سماعت کی گئی ہے لیکن یہ ججوں کے موڈ پر منحصر رہتا ہے کس عرض گذار کو سننا ہے اور کس کو نہیں سننا ہے۔


 آج کل وکیلوں کے حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں، ایک تو پہلے مقدمات ملتے نہیں اور جو مل جاتے ہیں ان پر سماعت کراتے کراتے جان نکل جاتی ہے، ہائی کورٹ میں کئی کئی سالوں سے مقدمات سماعت کے منتظر ہیں، تاریخ ملنے بعد بھی مقدمات لسٹ نہیں ہوتے، ہاں البتہ کچھ وکیلوں کے مقدمات فٹافٹ لگتے ہیں، پتہ نہیں ان کے پاس کونسا علم ہے یا عمل ہے۔ یہ تو مشہور ہے ہی کہ سینئر وکلاء کا چہرہ دیکھ کر انہیں ان کے حساب سے تاریخ مل جاتی ہے اور انہیں ججوں کے عتاب کا شکار بھی نہیں ہونا پڑتا ہے۔ نچلی عدالتوں میں ایک مقدمہ کو فیصل ہونے میں آٹھ سے دس سال کا عرصہ درکا ر ہے، ایک وکیل چاہ کر بھی مقدمہ جلد ختم نہیں کرسکتا، عدالتوں پر کام بوجھ وکلاء کی پریشانی کی اہم وجہ ہے لیکن موکل یہ سمجھانا آسا ن نہیں ہے۔تاریخ پر تاریخ تو آپ نے سنا ہی ہوگا، وکلاء تو روز ہی دیکھتے ہیں یہ تاریخ پر تاریخ والا ماجرہ، تاریخ پر تاریخ سے صرف سرکاری وکیل کا فائدہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی فیس فی سماعت کے حساب سے حکومت متعین کرتی ہے، یہ سسٹم ختم کرنا ضروری ہے ورنہ تاریخ پر تاریخ پڑتے رہے گی۔


رمضان المبار ک چل رہا ہے، ایک عشرہ مکمل ہوچکا ہے،بامبے ہائی کورٹ اور سٹی سول اینڈ سیشن عدالت میں پوسٹ مسلم جج حضرات اکثر الانا سینٹر اور مجیدیہ مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیئے آتے ہیں، کبھی بھی ان کے آزو بازو اور آگے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے، کبھی نظریں بھی مل جاتی ہیں اور نظریں ملنے بعد ایسا محسوس ہونے لگتاہے کہ اب تو ججوں سے اپنی جان پہچان ہوگئی ہے لیکن عدالت کی کرسی پر براجمان ہوتے ہی ججوں کے رویہ میں یکسر بدلاؤ آجاتا ہے، ایسا لگتا ہی نہیں جمعہ کی نماز میں ہماری ان سے نظریں ملی تھیں یا ان کے بغل میں ہم نے نماز ادا کی تھی۔ 


یہ ہندوستانی عدلیہ کی غیر جانبداری کی ایک ادنی سی مثال ہے حالانکہ جانبداری کی بھی بیشتر مثالیں موجود ہیں، موجودہ دور میں تو جانبداری کی مثالیں اکثر دیکھنے میں آتی ہے لیکن اس پر زیادہ بول نہیں سکتے ورنہ توہین عدالت ہوجائیگا اور پھر ہوسکتا ہے آپ کی سند ضبط کرلی جائے اورآپ کو سال چھ ماہ کے لیئے پریکٹس کرنے روک دیا جائے۔


ایسے ہی ہمارے قریبی ایک سینئر وکیل صاحب ہیں جن کے بڑے بھائی جج ہیں، ان کی عدالت میں وکیل صاحب کے ساتھ کام کرنے والے وکلاء کو پیش ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جج صاحب کو اگر لگتاہے کہ وکیل ان کی پہچان کا ہے اور وہ صرف اسی لیئے ان کی عدالت میں پیش ہورہا ہے کہ جج صاحب فیور کریں گے تو جج صاحب دھیرے سے فائل سرکا دیتے ہیں اور مقدمہ کو دوسرے جج کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیتے ہیں۔


آرتھر روڈ جیل میں قائم خصوصی مکوکا عدالت میں ایک مسلم جج ہوا کرتے تھے، ہفتہ بھر وہ سرکاری گاڑی سے سفر کیا کرتے تھے لیکن جمعہ کے دن وہ اپنی ذاتی انڈیکا کار لیکر کورٹ آتے تھے اور جمعہ کے دن عدالت سے منسلک ان کے چیمبر سے ہی وضوع بناکر سات راستہ پر واقع مسجد میں جمعہ کی نماز با جماعت ادا کیا کرتے تھے۔جب تک وہ آرتھر روڈ میں تھے ان کا جمعہ کا معمول یہ ہی تھا۔  

رمضان المبارک کے ایام میں وکلاء کا حال برا ہوتا ہے،ایک عدالت سے دوسری عدالت دوڑنا، پہنچنے میں لیٹ ہوگئے تو سماعت کے ملتوی ہونے کا ڈر،پورا پورا دن نمبر کے انتظار میں بیٹھنا، روزے کی حالات میں بحث کرنا، موکل سے بات کرنا، دستاویزات کا مطالعہ کرنا، مشکل امر ہے۔ گذشتہ برس ہی جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ (سپریم کورٹ آف انڈیا) نے ایک مسلم وکیل کے مقدمہ کو نمبر آنے سے پہلے سن لیا تھا اور یہ کہا تھا کہ روزہ کی حالت میں کسی کو انتظار کرانا اچھا نہیں ہے، جسٹس چندر چوڑ نے تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ پانی کا ایک قطرہ پیئے بغیر دن بھر کا روزہ رکھنا قابل ستائش ہے۔



کل ہی کی بات ہے، میں نے ایک گلاس اورینج جوس سے ائیر پورٹ پر سحری کی اور افطاری چلتی ہوئی ٹرین میں، سپریم کورٹ آف انڈیا میں مسلمانوں کی املاک پر غیر قانونی طریقے سے چلائے جارہے بلڈوزر کے خلاف پٹیشن پر سماعت تھی جس میں شریک ہونا تھا، جمعیۃ علماء ہند اس مقدمہ میں اہم فریق ہے۔ روزے کی حالت میں دہلی کی شدید گرمی جھیلنا آسان نہیں تھا لیکن سپریم کورٹ میں موجودہ رہنا بھی ضروری تھا۔


الحمداللہ سپریم کورٹ نے مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلانے سے روک لگادی۔ میرا تو روزانہ کا معمول ہے ایڈوکیٹ افروز صدیقی، ایڈوکیٹ شریف شیخ، ایڈوکیٹ عبدالوہاب خان، ایڈوکیٹ عبدالمتین شیخ، ایڈوکیٹ رازق شیخ،ایڈوکیٹ افضل نواز، ایڈوکیٹ ارشد شیخ ودیگر کو دیکھنا جو مضافات سے صبح دس بجے کورٹ پہنچ جاتے ہیں، پھر واپسی میں روزہ افطار کرنے سے عین قبل گھر پہنچتے ہیں شام کے وقت مضافات کے ٹرافک کا تو سب کو علم ہے ہی، وقت پر گھر پہنچ جانا ہی غنیمت ہے، روزے کی حالات میں ہائی کورٹ سے سیشن کورٹ، سیشن کورٹ سے آفس بھاگنا، پھر اس درمیان جماعت سے نماز کی ادائیگی کرنا، آسان کام نہیں ہے، وکلاء کو اپنے روزے کی فکر کے ساتھ ساتھ جیل میں قید مسلم ملزمین کے روزوں کی بھی فکر رہتی ہے، ان کے لیئے عدالت سے گھر کے کھانے کا آرڈر لینا، سحر و افطار کی غذائیں قیدیوں کو حاصل ہو اس کے لیئے مختلف عدالتوں سے خصوصی پرمیشن حاصل کرنا، بیشتر جونیئر وکلاء تو اتنے دور دراز سے آتے ہیں کہ ہائی کورٹ کے پاس واقع مسجد میں روز افطارکرکے ہی گھر روانہ ہوتے ہیں پھر بھی اکثر لوگ ایسا کہتے ہیں پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا۔۔۔۔دل دکھ جاتا ہے یہ سن کر!

Post a Comment

0 Comments