The global site tag (gtag.js) is now the Google tag. With this change, new and existing gtag.js installations will get new capabilities to help you do more, improve data quality, and adopt new features – all without additional code. مساجد سے لاوڈاسپیکر کا استعمال، سپریم کورٹ کا ۲۰۰۵ فیصلہ اور قانونی معلومات

مساجد سے لاوڈاسپیکر کا استعمال، سپریم کورٹ کا ۲۰۰۵ فیصلہ اور قانونی معلومات

 تحریر: ایڈوکیٹ مومن مصدق مجیب

ممبئی ہائی کورٹ

8080876069


لاوڈاسپیکر کا استعمال کچھ سیاسی شعبدہ بازی کی وجہ سے اس وقت ریاست مہاراشٹر میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ مساجد سے اذان کے لئے استعمال ہونے والے لاوڈاسپیکر کو نکالنے کے لئے وارننگ دی گئی ورنہ قانون کی پرواہ نا کرنے کا عندیہ ظاہر کیا گیا ہے۔


عام فہم بات ہے کہ اگر کسی شخص کو کسی بات سے دقت یا تکلیف ہو یا کسی قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہو، تو وہ شخص موجودہ قانونی نظام کے تحت شکایت درج کرسکتا ہے اور متعلقہ اتھارٹی سے خلاف ورزی کا سددباب کرسکتا ہے۔ اگر متعلقہ اتھارٹی شکایت پر کام نا کرے تو اس کے لئے عدالتی نظام موجود ہے۔ پورے ملک میں بشمول مہاراشٹر میں، ۱۹۸۶ سے ماحولیاتی حفاظت کا قانون موجود ہے۔ ۲۰۰۰ سے صوتی آلودگی قواعد موجود ہیں جس کے تحت مختلف زون میں صوتی آلودگی کی قدر وپیمانے نیز شکایت کا نظام، اجازت کا نظام موجود ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو بلا وجہ تکلیف دینے سے متعلق تعزیرات ہند کی دفعات موجود ہیں۔ لیکن پہلے سے موجود قانونی نظام سے رجوع نا کرتے ہوئے عوامی جلسوں میں ایک مخصوص آواز کو نشانہ بناتے ہوئے سیاسی ماحول گرمانے کی کوشش کی جارہی ہے۔



مساجد سے لاوڈاسپیکر ہٹانے کے بیانات میں سپریم کورٹ کے ذریعے ۲۰۰۵ میں سنائے گئے فیصلے کا حوالہ زوروشور سے دیا جارہا ہے۔ اس سے عوام میں ایک غلط فہمی پیدا ہورہی ہے کہ سپریم کورٹ کا مذکورہ فیصلہ صرف اذان یا مساجد کے لاوڈاسپیکر کے متعلق تھا۔ جبکہ یہ محض ایک غلط فہمی ہے۔


۲۰۰۵ میں سپریم کورٹ نے ایک رٹ پٹیشن اور ایک سول اپیل پر ایک ساتھ فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلے کو صوتی آلودگی کے شعبے میں سنگ میل فیصلہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ انل متل نامی ایک انجینئر نے مفاد عامہ رٹ پٹیشن داخل کی تھی اور صوتی آلودگی قوانین پر سختی سے عمل کی درخواست کی تھی۔ پٹیشن داخل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک ۱۳ سالہ لڑکی کی عصمت دری کی گئ تھی اور اطراف میں لاوڈاسپیکر پر گانے اور میوزک کے شور میں اس لڑکی کی چیخ و پکار کسی نے نہیں سنی۔ دوسری اپیل اس موضوع پر کی گئ تھی کہ حکومت نے قواعد میں ترمیم کی تھی اور اس ترمیم کو چیلنج کیا گیا تھا۔ بعد ازاں بہت سارے افراد اور تنظیمیں مداخلت کار کے طور پر شامل ہوئے اور بہت ساری صوتی آلودگیوں بالخصوص پٹاخوں کی نشان دہی کی گئی۔ ایک مداخلت کار نے عدالت سے درخواست کی کہ مندر، مسجد، چرچ اور تمام مذہبی مقامات پر لاوڈاسپیکر کے استعمال کو قابو میں کیا جائے۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مذکورہ فیصلہ کسی مخصوص مذہب یا مذہبی مقامات کے بارے میں نہیں تھا بلکہ تمام تر صوتی آلودگیوں کے بارے میں تھا جس میں کسی بھی مذہبی مقام سے لاوڈاسپیکر کے ذریعے ہونے والی صوتی آلودگی بھی شامل ہے۔


عدالت نے اپنے فیصلے میں سب سے سخت جائزہ اورمشاہدہ پٹاخوں سے ہونے والی صوتی و ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں کیا اور اس کے سددباب کے لئے مختلف ہدایات جاری کیں۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے صوتی آلودگی کے اہم ذرائع کا تعین کیا جس میں 

روڈ ٹریفک، ہوائی جہاز، ریل، تعمیراتی کاموں سے، بلڈنگوں سے ہونے والی آلودگی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس فیصلے میں عدالت نے مختلف صوتی آلودگی بالخصوص پٹاخوں سے ہونے والی آلودگی کے صحت پر ہونے والے مضر اثرات، آلودگی قوانین پر سختی سے عمل نا ہونے کی وجوہات، مختلف ترقی یافتہ ممالک میں صوتی آلودگی قوانین وغیرہ پر بحث کی ہے۔ پورے فیصلے میں مذہبی مقامات کی صوتی آلودگی کا سپریم کورٹ نے کوئی خصوصی تذکرہ نہیں کیا بلکہ اسے عمومی طور پر لاوڈاسپیکر سے ہونے والی صوتی آلودگی میں شامل سمجھا ہے۔ فیصلے کے اخیر میں لاوڈاسپیکر کے استعمال سے متعلق سپریم کورٹ نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ عوامی مقام جہاں لاوڈاسپیکر کا استعمال ہورہا ہو، تو اس عوامی مقام کی حد پر آواز کی سطح ، اس علاقے کی آواز کی سطح سے ۱۰ ڈیسی بل یا ۷۵ ڈیسی بل (ان دو میں سے جو کم ہو) اس سے ذیادہ نہیں ہونا چاہیئے۔ اس کے علاوہ عدالت نے ہدایت جاری کی کہ صوتی آلودگی قواعد ۲۰۰۰ کی سختی سے پابندی کی جانی چاہیئے۔


سپریم کورٹ کے ۲۰۰۵ کے فیصلے کا محور یہ تھا کہ آرٹیکل۲۱ دستور میں صرف برائے نام نہیں ہے بلکہ حق زندگی دستور کا سب سے اہم حصہ ہے۔ زندگی جینے کا حق اپنے اندر بہت سارے دیگر حقوق کو شامل کرتا ہے جیسے باوقار طریقے سے رہنا، بنا کسی مداخلت کے اپنی مرضی سے زندگی گزارنا، کسی بے جا تکلیف سے محفوظ زندگی گزارنا وغیرہ وغیرہ۔ اس حق میں یہ بھی شامل ہے کہ جو آواز آپ نہ سننا چاہیں وہ زبردستی آپ تک نہ پہنچے۔ لیکن اس حق کے تحت کوئی شخص شوروغل کرنے کا حق طلب نہیں کر سکتا۔ آرٹیکل ۲۱ کے بالمقابل کوئی شخص اظہار رائے اور مذہبی آزادی کے حقوق میں پناہ نہیں لے سکتا۔ عدالت نے مزید کہا کہ اگر کسی شخص کو بولنے کی آزادی ہے تو یکساں طور پر کسی کو سننے اور سماعت سے انکار کرنے کی بھی آزادی ہے۔


 صوتی آلودگی قواعد (۲۰۰۰) کی رو سے ریاستی حکومت کو مختلف زون طے کرنے کے اختیارات دئے گئے۔ ہسپتالوں اور دواخانوں کے ۱۰۰ میٹر کے احاطے کو سائلنٹ زون قرار دیا گیا۔ ان قواعد کے مطابق بناء سرکاری اجازت لاوڈاسپیکر کے استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا اور رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک لاوڈاسپیکر کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی۔ خلاف ورزی پر سزا کا بھی اطلاق بتایا گیا ہے۔ یہ قانون اور قواعد شروع سے موجود ہیں اور یہ بلا تفریق مذہب ہر شخص اور ہر مذہب پر نافذالعمل ہیں۔ قواعد ۲۰۰۰ میں سب سے اہم ہر زون کی آواز کی پیمائشی قدر دی گئی ہیں مثلا سائلنس زون ، رہائشی، تجاری ، صنعتی زون میں کتنی آواز جائز ہے۔ 


مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۵ کو مسجد میں لاوڈاسپیکر کے استعمال کے خلاف ایک رٹ پٹیشن خارج کی تھی۔ اس مقدمے میں مسجد کے سامنے رہائش پذیر ایک شخص نے دستور کے آرٹیکل ۲۱ کی بنیاد پر لاوڈ اسپیکر کے ذریعے اذان پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ اس کے بنیادی حقوق میں مداخلت ہے۔ ریاستی حکومت اور پولیس نے عدالت کو بتایا کی مذکورہ شخص کی شکایت پر پولیس اور انتظامیہ نے جانچ کی اور اس سلسلے میں موجود قوانین پر عمل یقینی بنایا تھا اس لئے عدالت پٹیشن خارج کردے۔ مسجد کے ذمہ داران نے بھی عدالت کو لاوڈاسپیکر استعمال کرنے کا اجازت نامہ دکھایا اور بتایا کہ کسی قاعدے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ عدالت نے ماضی کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی مقامات پر قانون کی پاسداری کے ساتھ لاوڈاسپیکر کا استعمال جائز ہے۔ مزید عدالت نے کہا کہ لاوڈاسپیکر میں اذان سے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں پائی گئی ہے۔ اس لئے شکایت کنندہ کی شکایت پر پولیس اور انتظامیہ مزید کوئی کاروائی نا کرے۔


مندرجہ بالا معلومات کی روشنی میں مساجد و مدارس جہاں لاوڈاسپیکر کا استعمال ہوتا ہے وہ سب سے پہلے اپنے زون کی معلومات لیں کہ مسجد کس زون میں موجود ہے۔ دوم اپنے لاوڈاسپیکر کی آواز کی پیمائش کروائیں اور اسے معلقہ زون کی پیمائش کے مطابق کریں اور مسجد کے اطراف کی آواز کی بھی پیمائش کریں۔ یہ پیمائش کسی کوالئفائڈ شخص یا ادارے سے ہو تو بہتر ہے۔ ان پیمائشی قدروں کے اندراج کے ساتھ متعلقہ اتھارٹی سے لاوؐڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت کی درخواست دیں۔ کیونکہ متعلقہ اتھارٹی کو درخواست پر تحریری اجازت دینا ضروری ہے یا تحریری انکار کرنا لازمی ہے۔ پیمائشی قدروں کے ساتھ اول تو انکار کی گنجائش نہیں رہے گی اور اگر انکار ہوتا ہے تو پیمائشی قدروں کے اندراج کے ساتھ درخواست مستقبل کی تمام قانونی کاروائیوں میں نہایت کارگر ثابت ہوگا۔

Post a Comment

0 Comments