The global site tag (gtag.js) is now the Google tag. With this change, new and existing gtag.js installations will get new capabilities to help you do more, improve data quality, and adopt new features – all without additional code. Nawai Shahar

 شہیدوں کی یادگار،  سو سال بعد بھی انتظار۔ کون ذمہ دار؟


از قلم: ایڈوکیٹ مومن مصدق مجیب


ممبئی ہائی کورٹ


 مالیگاؤں کے ۷  شہیدان وطن میں سے ۴  یعنی محمد سلیمان شاہ (ملزم نمبر۱)،  اسماعیل اللہ رکھا( ملزم نمبر ۳)،  محمدشعبان بھکاری (ملزم نمبر۲۹)،  اور بدھو فریدن  ملزم نمبر(۹۴) کو ۶  جولائی۱۹۲۲  کو پھانسی دی گئی تھی۔ اس واقعے کو عنقریب سو سال مکمل ہونے والے ہیں لیکن شہیدان وطن کا نام شہیدوں کی یادگار پر لکھوانا آج بھی ممکن نہیں ہو سکا ہے۔  اس کی مختلف وجوہات ہیں۔  قصور صرف فرقہ پرستوں اور متعصب حکام کا نہیں بلکہ کچھ اپنوں نے بھی اس کام میں  دانستہ نا دانستہ  روڑے اٹکائے ہیں۔




 جو فرقہ پرست تنظیمیں جنگ آزادی میں ملک دشمن انگریزوں کی علانیہ یا مخفی طورحمایت کار تھی وہ اور ان کےپیروکار تب سے لے کر آج تک شہیدوں کی یادگار پر نام کندہ کرنے کی پرزور مخالفت کر رہے ہیں جبکے یہ  حقیقت  روز روشن کی طرح عیاں ہے کے مالیگاوں کا۱۹۲۱  کا واقعہ کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں بلکہ جنگ آزادی کا ایک روشن باب ہے۔ ہندو مسلم دشمنی کا مذکورہ واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس بات کا ثبوت ۱۹۲۱  کے واقعہ  سے متعلق ناسک سیشن کورٹ  کے فیصلے سے بآسانی ملتا ہے۔   ناسک  سیشن کورٹ کے فیصلے میں  دیے گئے کچھ مشاہدات مندرجہ ذیل ہیں۔




۱۔ ملزمین نے کانسٹیبل اسماعیل جعفر کی پٹائی کی۔ ( صفحہ نمبر۱۰۸۰)


۲۔ کچھ ہندو اس تحریک عدم تعاون کے ممبر تھے۔( صفحہ نمبر۱۰۷۶)


۳۔ مسلمان مجمع نے کانسٹیبل اکبر علی کی پٹائی کی اور وہ زخمی اور بے ہوش ہو گئے تھے۔ ( صفحہ نمبر۱۰۸۱)


۴۔ ملزم نمبر۵۱ ، بھالچند  ہیرا چند  کو قصور وار پایا گیا اور پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ( صفحہ نمبر۱۱۳۰اور ۱۱۵۵)


۵۔ ملزم نمبر۹۴ بدھو فریدن  نے بتایا کہ شیخو میاں، کسن داس، ساکر چند، کھرے اور انھوں نے مل کر فیصلہ لیا کہ مندر میں آگ لگا دی جائے۔ ( صفحہ نمبر۱۱۳۸)


۶۔ پولیس نے مندر کی سیڑھیوں سے نیچے کی جانب فائرنگ کی جس میں دو یا شاید تین افراد مارے گئے ( صفحہ نمبر۱۰۸۷)


۷۔ مندر کو آگ لگانے کی وجہ اندر چھپے ہوئے لوگوں کو باہر نکالنا تھا۔ ( صفحہ نمبر۱۰۷۳)




 مندرجہ بالا عدالتی مشاہدات ناسک سیشن کورٹ کے فیصلے سے ماخوذ ہیں نا کہ کسی مسلمان مورخ  کی کتاب سے اور یہ فرقہ پرست عناصر کے جملہ الزامات کی مکمل نفی کرتے ہیں۔  اس کے باوجود حکام کا بے بس ہونا چہ معنی دارد؟




 ّّّسرکاری دفاتر کے ریکارڈ کے مطابق ،شہیدوں کی یادگار پر نام لکھے جانے کی مخالفت کرنے والوں میں اگرچہ شیوسینا، بی جے پی، بجرنگ دل اور ساروجنک ناگری سویدھا سمیتی جیسی تنظیموں کے نام اور انفرادی طور پر مالیگاؤں  آؤٹر کے ریاستی وزیر،  ایڈوکیٹ سنجے  دسانے،  رام داس کھنڈو بورسے،  دنیش دھونڈو ماڑی،  اور شنکر گنگا رام واگھ  شامل ہیں جو مالیگاؤں کے سات شہیدان وطن کو فسادی قرار دیتے ہیں اورمکتوبات و میمورنڈم کی شکل میں وقتا فوقتا اپنی مخالفت حکام کو درج کراتے رہتے ہیں۔  جبکہ حکومت ہند اور حکومت مہاراشٹر نے  مکمل تفتیش، تحقیق اور اطمینان کے بعد انہیں سرکاری دستاویز میں شہیدوں کا درجہ دیا ہے۔  حیرت انگیز بات ہے کے حکومتی دستاویزات میں شہید تسلیم کیے گئے افراد کو چند افراد کی بے بنیاد مخالفت کی وجہ سے حکام شہیدان وطن کا درجہ دینے سے انکار کر رہے ہیں۔  حکومتی دستاویزات نے شاید اپنی اہمیت کھو دی ہے۔ حالانکہ  مخالفت کے  مقابلے میں نام کندہ کروانے والے افراد کی تعداد بے شمار ہے۔




 دیگر اہم رکاوٹوں میں سے ایک مالیگاؤں میونسپل کارپوریشن کی جانب سے منعقد کی گئی ۷  اگست۲۰۰۵  کی ایک اہم میٹنگ ہے۔  یہ میٹنگ شہیدوں کی یادگار کی تجدید کے عنوان پر رکھی گئی تھی لیکن بدقسمتی سے مختص کرنا عنوان سے پرے مذکورہ میٹنگ میں یہ بھی طے کیا گیا کے شہیدوں کی یادگار پر کسی بھی شخص کا نام نہیں لکھا جائے گا۔  میٹنگ کے احوال کے دستاویز کے مطابق اس میٹنگ کے شرکاء میں۲۰۰۵  کے کانگریس کے   اس وقت کے ایم ایل اےاور  میئر، شری کلیان کیلکر ( کمشنر) ،  وسنت  چوہان،سکھارام گھوڑکے،  شیخ کلیم،  چندن مہسدے، دیپک بھونسلے اور گوتم باوسکر تھ جنھوں نے اپنی شمولیت اور فیصلے سے اتفاق پر دستخط بھی درج کرائے ہیں۔  نا واقف عوام آج بھی تذبذب میں مبتلا ہے کہ کارپوریشن کے ذریعے نام لکھے جانے میں ٹال مٹول کیوں کیا جاتا ہے۔ اس وقت شرکائے میٹنگ کو صرف تجدید کے عنوان پرمحدود رہتے ہوئے بحث اور فیصلہ کرنا تھا یا کم از کم نام نا لکھنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا بہتر ہوتا۔ اختیارات ہوتے ہوئے اور موقع میسر ہوتے ہوئے بھی مذکورہ میٹنگ میں نام نا لکھے جانے کا فیصلہ کرنا شہداء آزادی کے ورثاء کے وقار و جذبا ت کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔




یکم جنوری۲۰۱۰  کو منترالیہ ،   ممبئی میں شہیدوں کی یادگار پر نام لکھنے کے عنوان پر  منعقدہ میٹنگ میں وقت


کے وزیر برائے اقلیتی امور محترم  عارف نسیم خان صاحب نے اس وقت کے  مالیگاؤں کے ایڈیشنل کلکٹر


آنجہانی یشونت  سونونے صاھب کو  واضح حکم دیا تھا کہ جب سرکاری دستاویزات میں مذکورہ افراد کو شہید 


تسلیم کیا گیا ہے تو ملک کے دیگر علاقوں کی طرح مالیگاؤں میں بھی ان کا نام لکھا جانا ضروری ہے۔  مزید


ایڈیشنل کلکٹر صاحب کو حکم دیا گیا کے تمام متعلقہ  افراد کی میٹنگ کا انعقاد  کرتے ہوئے غیر ضروری


اعتراضات کرنے والوں کے خدشات کو رفع کریں اور ۲۶  جنوری۲۰۱۰  تک سات شہیدوں کے نام 


لکھوانے کی کوشش کریں۔  لیکن آج تک اس ضمن میں کسی بھی میٹنگ کا انعقاد نہیں ہوا۔  اس سے حکومتی


افسران اور حکام کی  نیتوں کا  بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 




 شہیدوں کی یادگار پر نام لکھے جانے کے معاملے میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کے  ریاستی  حکومت کے جس جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ  نے نومبر ۲۰۰۶   میں مالیگاؤں میونسپل کارپوریشن کے کمشنر کو یہ ہدایت  جاری کی تھی کے شہیدوں کی یادگار پر نام لکھنے کا فیصلہ خود  مالیگاؤں کارپوریشن کو کرنا ہے اسی محکمے نے نومبر۲۰۱۱  میں ایک اور حکم جاری کرتے ہوئے شہیدوں کی یادگار کی حالت جیسی تھی ویسی یعنیstatus quo  برقرار رکھنے کی ہدایت دی  جس کی وجہ سے  اس  مسئلے میں  سرکاری پیچ پڑا ہوا ہے اور مستقبل قریب میں شہداء کے نام لکھوائے جانے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔  اگرچہ ہر الیکشن میں اس مسئلے کو زور و شور سے اٹھایا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے  شہریان  مالیگاؤں اور بالخصوص وارثین شہداء کے  وقار کی بحالی کا کام نہیں کیا  جاتا۔  سو سال کا وقفہ کوئی کم  نہیں ہوتا اور ملک کے حالات جس رخ پر جا رہے ہیں مستقبل میں اس کام میں مزید  دشواریوں کے سامنے آنے کا اندیشہ ہے۔  اس سلسلے میں شہر  مالیگاؤں کے باشعور افراد اور اداروں کو غور و فکر کرنا چاہیے اور عوامی نمائندوں کے ذریعے پختہ طور پر شہیدوں کی یادگار پر نام لکھوانے کا کام انجام دینا چاہیے۔ شہر سے بیشتر افراد مختلف غیر ضروری عنوانات پر فورا عدالت  پہنچ جاتے ہیں لیکن  شہیدوں کی یادگار کے معاملے میں پختہ ثبوت و شواہد موجود ہونے کے باوجود جس درجے کی ٹھوس قانونی لڑائی کی شروعات ہونی تھی وہ اب تک نہیں ہوئی ہے۔




 اگرچہ  سرکاری عمارتوں اور اسمارک  کی اصل اہمیت ہوتی ہے لیکن سو سال کا وقت گزر جانے کے بعد اور موجودہ صورتحال میں کسی اہم جگہ پر اپنی عوامی شہیدوں کی یادگار تعمیر کر کے اس پر ان سات شہداء کے ناموں کو لکھا جا سکتا ہے۔  غیر سرکاری ہونے کی صورت میں کسی کو اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔  اس طرح مالیگاؤں کی تاریخ کے ایک اہم پہلو کو  آئندہ کے لئے محفوظ کیا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ سرکاری عمارت پر نام لکھے جانے  کی جدوجہد جاری رکھی جا سکتی ہے۔

Post a Comment

0 Comments