دین کے قلعوں کومزید مؤثر کیسے بنایا جائے ؟
اسا نغنی مشتاق رفیقی
انسانی زندگی میں تعلیم کی اہمیت ہمیشہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ انسان کو دوسرے جان دار سے ممتاز کرنے والی چیز علم ہی ہے۔ ازل سے علم ہی ایک واحد وسیلہ ہے جس کے ذریعے انسان آسمانوں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ آج علم کی روشنی اور تابناکی ہزاروں گنا بڑھ چکی ہے۔ آج کا ہر انسان اس سے فیض اٹھانے کی جستجو میں ہمہ وقت مصروف رہنے کو اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھتا ہے۔ ہر نئی کرن کی طرف ایسے لپکتا ہے جیسے وہ اسی کی طرف آرہی ہے۔ تحقیق اور تجربے کی اتنی کھڑکیاں اس نے کھول رکھی ہیں کہ ہر روز ایک نئے سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔ اپنی بڑھتی ہوئی تشنگی کے لیے ہر لمحہ نئے نئے چشموں کی کھوج اس کا نصب العین بن گیا ہے۔ اس کا نصاب لمحہ لمحہ رنگ بدلتی کائنات سے ہم آہنگ اور اس کو نئی نئی دنیاؤں سے روشناس کرا رہا ہے ۔
تیز رفتار زندگی کی اس عظیم دوڑ میں اگر کوئی خواب غفلت میں مبتلا روز بروز پیچھے اور پیچھے ہوتا جا رہا ہے تو وہ مسلمان ہے۔ خاص کر بر صغیر کا مسلمان۔ ایک شکست خوردہ انسان کی طرح سوائے شکوہ گلہ اور رنجشوں کے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ علم کی چکا چوند کو دیکھ رہا ہے لیکن اس سے فیض اٹھانے سے اس لیے خوف زدہ ہے کہ وہ تاریکی کا عادی ہو چکا ہے۔ اسے ڈر ہے کہ یہ روشنی اس کی محبوب تاریکی کو ختم کر دے گی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اسے خود اس بات کا علم ہے۔ یہ جو علم کی نئی روشنی کائنات کے ذرے ذرے کو منور کر رہی ہے اُسی کی جاگیر اور میراث ہے، جس کو ایک عرصہ ہوا بے کار کے جھمیلوں میں پڑ کر وہ فراموش کر چکا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس کے پاس جو کتاب محفوظ ہے اس کی ابتدا ہی ’’ اقرا ‘‘ سے ہوئی ہے، لیکن اندھی تقلید کی پٹیاں اس کی آنکھوں پر باندھی جاچکی ہیں، اس کے فہم وفکر پر جمود کی اتنی برف جم چکی ہے کہ وہ ہر نئی بات سے خائف ہے۔ وہ جانتا اور سمجھتا ہے کہ اس کے پاس جو چراغ ہے اس کی روشنی مدھم ہوتی جارہی ہے، اس کی لَو کو زندہ رکھنے کے لیے ایندھن کی ضرورت ہے، اس ایندھن کو جو کبھی اس کے آباء واجداد نے استعمال کیا تھا اور دنیا کو روشنیوں کے نئے نئے زاویوں سے روشناس کرایا تھا۔ امام غزالی، البیرونی، ابن سینا، ابن الہشیم، ابن رشد، جابر بن حیان، ابولقاسم الزہراوی، عمر الخیام وغیرہ روشنی کے وہ عظیم مینار ہیں جن کا فیض آج بھی جاری ہے۔ غیروں نے جن کی بنائی ہوئی بنیادوں پر دیواریں کھڑی کر کے ستاروں کی راہیں تلاش کر لی ہیں اور ان کے ماننے والے تاریکی کے اسیر ہو کر رہ گئے۔
بر صغیر کو آزاد ہوئے پچھتر سال ہوچکے ہیں۔ آزادی کے روز اول سے، جدید تعلیم کے نام پر جو نصاب ترتیب دیا گیا اس میں آئے دن، اس کو وقت کی رفتار سے جوڑے رکھنے لیے ہنگامی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ یہی زندگی کی علامت بھی ہے۔ لیکن ہماری دینی درسگاہوں کے نصاب میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔
ایک طرف نصاب تعلیم کو نئے تقاضوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہے تو دوسری طرف اساتذہ کو بچوں کی نفسیات سمجھنے کی ٹریننگ دینا بھی ضروری ہے۔ 2011ء کے ایک سروے کے مطابق ملک میں 35,000 سے زائد مدرسے ہیں جن میں امت کے لاکھوں نو نہال، مستقبل کے شہسوار تعلیم حاصل کرتے ہیں اور فارغ ہو کر قوم وملت کے بکھرے گیسو سنوارنے کے لیے میدان عمل میں سر گرم ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ہر اعتبار سے ان کی فکری اور علمی تربیت کرنا بہت ضروری ہے تاکہ یہ فارغینِ مدارس بدلتی دنیا کو اسلامی تہذیب کے سائے میں لاسکیں۔
نصاب کو زمانے سے ہم آہنگ نہ کرنے کے نتیجے فارغین مدارس کو عملی میدان میں جو داشواریاں پیش آ رہی ہیں اس کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا، اس لیے مدارس میں جدید زبانیں سکھائے جانے کا بھی انتطام ہو تو ان مدارس سے نکلنے والی نئی پود سماج کے لیے بے انتہا فائدہ مند ثابت گی۔ اسی طرح فارغین مدارس کے لیے جدید علوم میں مہارت پیدا کرنے کی ضرورت اسی لیے بھی ہے کہ جب اُنہیں کسی جدید چیز کی اصل اور اس کی ماہیت کا صحیح علم ہو گا تب ہی وہ اس کے تعلق سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل فراہم کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مدارس دین کے قلعے ہیں، مدرسوں میں علم دین پڑھایا جاتا ہے اور دین اپنے وسیع معنوں میں انسانی زندگی کے ہر شعبے سے بحث کرتا ہے اس لیے موجودہ جدید طرز زندگی اور اس سے جڑے مسائل سے واقفیت از حد ضروری ہے۔
مدرسے کے طلبہ کی غالب اکثریت کا تعلق سماج کے ان گھرانوں سے ہوتا ہے جن میں معاشی عدم استحکام ہوتا ہے اس لیے ان طلبہ کو احساس کمتری سے بچانا اور ان میں خوب خود اعتمادی پیدا کرنا ضروری ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب احساس کمتری کے ساتھ وہ سماج میں جائیں گے تو نہ وہاں ان کی بات مؤثر ہو گی اور نہ ہی وہ سماج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں گے۔ ایک اور بات جس پر توجہ دینا بے حد ضروری ہے وہ یہ ہے مسلکوں کے سلسلےمیں وسعت ظرفی سے کام لینے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے تاکہ مسلکی جھگڑے ان کی دوسری علمی ودینی سرگرمیوں کو متاثر نہ کر سکیں۔
ان سب کے علاوہ مدرسوں میں ایک اور شعبہ جس کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی ہے وہ ہے فاصلاتی تعلیم کا شعبہ۔ امت کے ان افراد تک علم کو عام کرنے کے لیے جو کسی وجہ سے مدرسوں میں کل وقتی داخلہ نہیں لے سکتے یا وہ افراد جو عصری تعلیم سے وابستہ ہیں لیکن مدرسوں سے بھی منسلک رہنا چاہتے ہیں یہ شعبہ بے حد ضروری ہے۔ اس کے لیے بھی جدید طرز پر ایک جامع اور آسان نصاب کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ منتظمین مدرسہ کو تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہر ادارے سے رابطہ قائم کر کے ان سے استفادہ بھی کرتے رہنا چاہیے تاکہ تعلیم کے بحرِ بے کراں میں اُٹھنے والی ہر جدید لہر سے آگہی ہوتی رہے۔ اپنے اطراف موجود عصری تعلیم گاہوں اور دوسرے مدارس کے ساتھ ایک وفاق قائم کر کے اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں انہیں مدعو کرنا یا ان کے یہاں جاتے آتے رہنا چاہیے تاکہ سماج میں مدرسوں کے تعلق سے ایک اچھا تاثر قائم ہو سکے۔
کرنے کے کام بہت ہیں۔ زمانہ بڑی تیزی سے آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ تبدیلیاں اتنی تیزی سے رونما ہو رہی ہیں کہ مستقبل کے تعلق سے کچھ بھی کہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ تنگ نظری کا چشمہ اتار کر جب تک ہم حالات کو صحیح تناظر میں نہیں دیکھیں گے، اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کا تدارک نہیں کریں گے تو یقین رکھیے کہ ہم سماج کے لیے بے اثر ہو جائیں گے اور یوں ملت کا ایک بڑا سرمایہ اپنے شاندار ماضی کی تاریخ نہیں دہرا سکے گا۔ اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔
***
0 Comments