اختلافات، فرقہ پرستی اور ہماری بقا
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
موبائل: 9894604606
اسلام ہی ایک ایسا مکمل دین ہے جو انسانی زندگی کے ہر شعبے سے بحث کرتا ہے اور اس کی رہنمائی کا دعویٰ کرتا ہے۔ عرب کےتپتے ہوئے صحراؤں سے نکلنے والا سلامتی اور امن عالم کا علمبردار یہ دین چودہ سو سالوں سے انسانیت کے گیسو سنوارتا آرہا ہے۔ اس دین کی سب سے بڑی طاقت اس کے ماننے والوں کی اس سے والہانہ لگاؤ اور اس کی خاطر جان تک قربان کر دینے کی ادا ہے اور اسی طرح اس دین کی سب سے بڑی کمزوری بھی اس کے ماننے والوں کا اس کے ساتھ حد سے بڑا ہوا جنون ہے جو اکثر اوقات اپنے اورغیر کی تمیز کھو کر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرا دیتا ہے اور بعض اوقات ایسے جذباتی چکروں میں الجھا دیتا ہے کہ ایک بڑے اور شدید نقصان کے بعد ہی اس کا شعور حاصل ہوتا ہے اور وہ بھی ایسا کہ اس سے کبھی کوئی سبق نہیں لیا جاتا۔ چودہ سو سالوں سے ایسا ہی ہوتا آرہا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
اولین دور میں خانوادہ ء رسول کے قافلے پر میدان کربلا میں حملہ، نبیرہ رسول اور ان کے تمام مرد رشتہ داروں کا وحشیانہ قتل اور ان کی خواتین کا سر برہنہ شام کے دربار میں پیش کیا جانا، ان سب کے مرتکب اسلام کے نام لیوا اور آل رسول پر اپنے نمازوں میں درود و سلام بھیجنے والے ہی تھے اور یہ بد بختانہ فعل انہوں نے اسلام کا نام لے کر ہی کیا تھا۔ اس عظیم سانحہ کے بعد ملت اسلامیہ دھیرے دھیرے دو فرقوں میں بٹتی چلی گئی اور ان دونوں کے بیچ اختلافات کی اتنی گہری کھائیاں، خلیج اور سمندریں آگئے ہیں کہ ان کا پاٹنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے جب تک خدا نہ چاہے۔ ایک فرقہ اس سانحہ کے لئے اولین دور کے اکثر نفوس کو ذمہ دار ٹہراتا اور ان کی ہجو کرنے کو اپنا ایک دینی فریضہ سمجھتا ہے تو دوسرا فرقہ آج تک یہ طے نہیں کر پایا کہ اس قتل و غارت گری کے لئےفرد جرم کس پر عائد کیا جائے۔ کچھ اس سانحہ کو ایک افسانہ سمجھتے ہیں تو کچھ اس ظلم کے مرتکبین کی صفائی میں اتنے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ مظلوم کو ظالم کی صفوں میں لا کھڑا کر دیتے ہیں۔ کچھ اس جرم کے قائل تو ہیں لیکن اس کی جڑوں کی آبیاری کرنے کو مقدس فرض سمجھتے ہیں جس سے یہ سانحہ لایعنی بن کر رہ جاتا ہے۔ تاریخ کے صفحوں میں اس سانحہ پر لاکھوں صفحات لکھے جاچکے ہیں، اس کے باوجود آج تک ملت نے اس سے جو سبق لیا جانا چاہئے تھا وہ نہیں لیا۔ آج بھی اسلام کے سچے پیروکاروں پر ظلم و جبر کا قہر کلمہ گو ہی توڑتے ہیں اور وہ بھی اسلام کا نام لے کر۔
اختلا فات، اختلافات سے فرقہ، فرقہ سے فرقہ پرستی کی جو بیماری ملت میں در آئی وہ روز بروز سرطان کی طرح پھیلتی گئی اور آج بھی پورے زور و شور کے ساتھ پھیلتی جارہی ہے۔ موجودہ دور میں علم کی ترویج سے ہر خاص و عام یہ بات جان گیا ہے کہ چنگیز و ہلاکو سے لے کر موجودہ دور تک ، جتنے بھی ظالم حکمرانوں نے اسلام کے نام لیواؤں کے خلاف ظلم و بربریت کا ننگا ناچ برپا کیا اس کے پس پردہ اپنوں کا ہی ہاتھ رہا ہے۔
وطن عزیز میں مسلمانوں کے حالات روز بروز بگڑتے جارہے ہیں ۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب مسلمانوں کے حوالے سے کوئی بڑی سانحہ کی خبر نہ آتی ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک قیامت صغریٰ برپا ہوچکی ہے اور ہم نفسی نفسی چلانے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں۔ صفوں میں ایک انتشار برپا ہے، چہروں سے بے یقینی اور پریشانی ٹپک رہی ہے، خوف اور ڈر کے سیاہ بادلوں سے ماحول میں گھبراہٹ کی تاریکی بڑھتی جارہی ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں کوئی آسرا نہیں ، یوں لگ رہا چہاروں سمت سے ہمیں ہانکا جاچکا ہے اور اب کسی بھی لمحہ ہم پر یلغار ہوسکتا ہے لیکن ایسے بد ترین حالات میں بھی ہماری صفوں میں کچھ لوگ فرقہ فرقہ کھیل رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے کھڑے ہیں۔ ماضی و حال سے بے پرواہ مستقبل کی فکر سے بے نیاز مسلکی جنون میں مبتلا یہ مٹھی بھر افراد حقیقت میں امت کے ناسور ہیں۔ اپنی نادانی سے یہ خود تو تباہ و برباد ہوںگے ہی ، مگر امت میں فساد پھیلا کر اس کو ذلیل و رسوا کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
انسانوں میں اختلافات کا پایا جانا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے یہ اس کی فطرت کا ایک حصہ ہے ۔جب تک یہ حد میں رہے کوئی مسئلہ نہیں لیکن جب یہ اختلافات حد سے تجاوز کر کے انا کا مسئلہ بن جائیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اب تباہی کچھ زیادہ دور نہیں ہے ۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے جب تک ہم اپنے اختلافات کو پس پشت نہیں ڈالیں گے اور ان عناصر سے جو ان اختلافات کو اپنے مطلب کے لئے ہوا دے کر ہمیں الجھا کر ہم میں انتشار برپا کر نا چاہتے ہیں، دور نہیں ہوں گے اور سلامتی اور امن والی اپنی منصبی ترجیحات طے کر کے اس کے مطابق آگے نہیں آئیں گے اس سرزمین میں ہماری بقا مشکل ہے۔
0 Comments