✍🏻 *حافظ محمد غفــــــران اشرفی*
*(جنرل سکریٹری سنّی جمعیة العوام)*
📱 *[7020961779 /Malegaon]*
طلبۂ قومِ مسلم میں ورق گردانی اور کتب بینی کا جذبہ مفقود ہوگیا ہے۔اِسی لیے اب لوگوں کی عقلیں سُکڑ سی گئی ہیں۔آسان سے آسان باتیں بھی سمجھ میں آنے کی بجائے اُلجھ جاتی ہیں۔جس کی وجہ سے معاشرہ میں مسائل کا نہ ختم ہونے والا طویل سلسلہ نظر آتا ہے جس نے ہمیں ناکامی کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔اسلامی تواریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ قرونِ اُولیٰ کے لوگ اِس قدر وسائل و ذرائع سے واقف و آشنا نہیں تھے جتنا فی زمانہ ہم لوگ ہیں۔اس کے باوجود اُن کے پاس علم وہ تھا کہ اُس معاشرہ کے اکثر افراد چلتا پھرتا کتب خانہ کہے جاتے تھے۔باریک سے باریک مسائل کو چُٹکیوں میں حل کر دیا کرتے۔جب کہ اُس دور میں علم پتھروں،کھجور کی چھالوں،چمڑوں اور کپڑوں پر یا پھر لکڑی کی تختیوں پر تحریر ہوتا۔اُن محدود ذرائع میں بھی وہ علوم و فنون کے بے مثال شہنشاہ تھے۔جس علم یا فن پر مسلمانوں نے ہاتھ رکھ دیا اُس علم و فن کو اوجِ ثریا پر پہنچادیا۔ ہر شاخ علم پر چراغ روشن کیا- دھیرے دھیرے دور بدلا تو کاغذ اور دوات وجود میں آئے جن کے ذریعہ سے کتب خانوں(لائبریریوں)کا وجود ہوا۔اُن میں فن تفسیر و فقہ،حدیث و تاریخ،اصول و علمِ کلام،علمِ نحو و صٙرف،معانی و لغت،بیان و بدیع، طبیعیات و کیمیا اور سینکڑوں علوم پر کتابوں کے ذخائر متلاشیانِ علم کو دعوتِ مطالعہ دیتے رہے، جہاں اُن مملکتِ علوم سے باذوق طلبا استفادہ کرکے علم کے لعل و جواہر نکالتے رہے۔رفتہ رفتہ مصر،یونان،بغداد،ایران،قرطبہ اور اسپین میں جہاں جہاں مسلمانوں نے اپنی فتح و کامرانی کے پرچم نصب کیے اُن مقامات پر عالیشان و پُر شکوہ کتب خانے قائم کردیئے۔اُن ادوارِ قحط الوسائل میں بھی لوگوں میں تعلیم کے حصول کا ذوق اِس قدر تھا کہ کتب بینی کرنے والے تشنگانِ علوم نے اپنا رہتا گھر بھی کتاب کی خریدی اور خواندگی کے لیے فروخت کردیا بعدہٗ دمِ آخر تک سرائے میں زندگی بسر کرلی۔ ایثار کی مثالیں قائم کیں- گویا علم کے مقابل مکان اور کھانا اُن کے لیے کوئی اہمیت کی بات نہیں تھے لیکن علم کا دستر خوان اُن کے سامنے ہر وقت سجا ہوا ہوتا، یہ فعل اُن کے لیے مرغّن غذاؤں سے حد درجہ عزیز تھا۔اِسی لیے وہ لوگ صدیوں تک ہر قوم پر غالب و حاکم رہے۔دنیا کی دوسری قوموں نے علوم و فنون میں مہارت تامّہ حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے در پر صدیوں تک جبیں سائی کی ہے۔لیکن اب قومِ مسلم کے طلبہ پر ایسا وقت آن پڑا ہے کہ جو قوم علوم و فنون میں تمام قوموں کی مقتدا و پیشوا تھی اور جس نے بغیر کسی قومی و مذہبی امتیاز کے علم کی دولت کو تقسیم کیا اب اُس قوم کے طلبہ دوسروں کے در پر کاسئہ علم پھیلا کر بڑی بڑی رقم دے کر علمی بھیک لینے پر مجبور ہیں۔وجہ عیاں ہے غیروں نے علم کو ہی اپنے لیے سب کچھ جانا، اعلیٰ تعلیم گاہوں،ڈیجیٹل لائبریریز،اسٹڈی سینٹرز کا قیام کیا، اُس کے لیے کھانا نیند اور کھیل کود سب کچھ تج دیا، جس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ زراعت و جراحت،مقنّنہ و سیاسیات،ریاضیات و معاشیات، تجارت و صنعت الغرض اکثر مروّجہ علوم و فنون میں دوسری اقوام کے افراد ہی ماہر نظر آتے ہیں۔قومِ مسلم کے طلبہ کی فکر یہ ہوگئی ہے کہ ہم تعلیم کیوں حاصل کریں، آخر میں نوکری ہی تو کرنی ہے۔اِس لیے اب مسلم طلبہ علم سے زیادہ کھانا،سونا اور کھیل کود پر توجّہ دے رہے ہیں۔جلے پر مرچ پاشی کا کام اِس قوم کے سرمایہ دار ہوٹلوں پر ہوٹلیں تعمیر کرکے کررہے ہیں۔جن میں مسلم قوم کا بہت قیمتی سرمایہ پوری پوری رات وقت گزاری اور شکم سیری کرکے اپنا مستقبل برباد کررہا ہوتا ہے۔ہماری آبادیوں میں پچھلے دور کے مقابل کتابوں کے مطالعہ کی خاطر کتب خانے نہ دارد اور ہوٹلیں ہر گلی،ہر چوک اور ہر علاقے میں موجود ہیں اِسی لیے ہمارے طلبہ کی عقلیں سُکڑتی اور پیٹ بڑھتے جارہے ہیں۔
*صاحبانِ ثروت کے نام اہم پیغام:* اگر قوم اپنی عظمت کو پھر بحال کرنا چاہتی ہے تو قوم کے صاحبانِ ثروت جس طرح پُرشکوہ ہوٹلوں کی تعمیر پر کروڑوں روپئے بے دریغ خرچ کرکے خوب صورت اور دلفریب ہوٹلیں بنارہے ہیں ایسے ہی طلبہ کے ذہن و دماغ کو تعلیم کی طرف مائل کرنے کے لیے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق خوش نما اور دلکش تعلیم گاہوں،اسٹڈی و ریسرچ سینٹرز اور ڈیجیٹل لائبریریز کی تعمیر پر توجّہ دیں تو وہ دن بہت زیادہ دور نہیں کہ ہمارے طلبہ ذوق سے تعلیم پر محنت کرکے کتب بینی کے عادی ہوکر اپنی تیز طرار عقل کو بروئے کار لاتے ہوئے قوم کا کھویا ہوا وقار بحال کرسکیں گے۔اہلِ ثروت حضرات کو اگر یہی لگتا ہے کہ ہوٹلوں میں کمائی زیادہ ہے ہم کہتے ہیں آپ مذکورہ عمارتیں قائم کرکے بھی روپیہ کماسکتے ہو۔لیکن تعلیم گاہیں ایسی نہ ہوں جن کو دیکھنے کے بعد کسی مفلس قوم کی عکّاسی ہو،درس گاہ میں جانے کا دل نہ ہو بلکہ دورِ جدید کے لحاظ سے تعلیم گاہوں کو جس قدر خوبصورت کرسکتے ہیں کیجئے۔کھیل کے لیے وسیع و عریض میدان وہ بھی سبزے کی دبیز چادر میں لپٹا ہوا،عمارت دیدہ زیب جس میں آرام دہ کمرے اور تعلیمی ہال نیز بین الطلبہ ہونے والے کسی پروگرام کے لیے ہر طرح کے تقاضوں سے آراستہ دیدہ زیب آڈیٹوریم،صاف صفائی کا کما حقّہ انتظام،الغرض طالب علم اُس درس گاہِ علم میں اگر داخل ہوجائے تو پھر اپنے گھر کی واپسی کا خواب دیکھنا بھی ترک کرکے دلجمعی کے ساتھ تعلیم مکمل کرے۔اگر تعلیم گاہوں کے لیے ہماری قوم کے اہلِ ثروت اور دانشور حضرات کا یہ مزاج بن گیا تو طلبہ کی تعلیمی کمی بھی پوری ہوسکے گی اور سرمایہ دار حضرات قوم کے طلبہ کی خاطر تعلیمی انتظامات کرکے اپنی قوم پر اور آنے والی نسلوں پر احسان بھی کرسکیں گے۔
نوٹ:اس کے بعد جدید تقاضوں کے مطابق تعلیم گاہ کے خاکے پر ان شاء اللہ مضمون آپ کے مطالعہ کی میز پر رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔
اللہ ہم سب کو توفیقِ علم و عمل بخشے۔ آمین بجاہ حبیبہٖ سیدالمرسلین علیہ الصلاۃ والتسلیم-
0 Comments