اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
حق و باطل کی ازلی جنگ۔۔۔
آپ کس طرف ہیں؟
روز اول سے ہی دنیا میں دو طاقتیں سر گرم عمل رہی ہیں، ایک نیکی اور دوسری بدی کی طاقت، ان دونوں طاقتوں میں انکھ مچولی کا کھیل ازل سے جاری ہے۔ کبھی نیکی پر بدی غالب آجاتی ہے تو کبھی بدی پر نیکی، قدرت کا اصول بھی یہی لگتا ہے کہ ایسا قیامت تک ہوتا رہے گا۔ انسان ان دونوں طاقتوں کے درمیان ایک خود مختار سوچ کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی پسند سے ان میں سے کسی ایک کی صف میں شامل ہوجائے، اگر وہ نیکی کو اپنی فکر کامنبع بنائے گا تو ہمیشہ اس کے ثمرات سے فیض یاب ہوتا رہے گا اور اگر بدی کو اپنی سوچ کا محور بنائے گا تو اس کا حشر ہمیشہ کے لئے بدی کے ساتھ جوڑ دیا جائےگا۔
ان دو طاقتوں کے علاوہ دنیا میں کوئی تیسری طاقت نہیں ہے۔ انسان خود مختار ہوتے ہوئے بھی فطرتاً اس بات پر مجبور ہے کہ وہ ان دو طاقتوں میں کسی ایک کو اپنا سر خیل بنالے۔اس تقسیم کے بعد دنیا میں انسانوں کے بھی دو ہی گروہ بنتے ہیں ایک اہل حق کا گروہ جو نیکی کا طرفدار ہوتا ہے اور دوسرا باطل کا گروہ جو بدی کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہوتا ہے۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان ہمیشہ ایک جنگی کیفیت رہتی آئی ہے جو کبھی شدت کی خون ریزی میں تبدیل ہوجاتی ہے تو کبھی لامتناہی سرد جنگ میں۔
حق و باطل اور نیکی و بدی کی اس ازلی جنگ میں باطل ہمیشہ بے اصولی، عیاری و مکاری،منافقت اور دھوکے کے ساتھ میدان میں آتا رہا ہے لیکن حق ہمیشہ اصولوں کے ساتھ باطل کے سامنے سینہ سپر ہوتا رہا ہے۔آج سے چودہ سو سال پہلے شہر مکہ میں حق اور باطل کا یہ معرکہ ایک ایسی وضاحت کے ساتھ لڑا گیا کہ حق سورج کی طرح مکمل روشن ہوگیا اور باطل کا ہر وار دیوار پر تحریر کر دیا گیا تا کہ قیامت تک کے انسانوں کیلئے مکمل رہنمائی ہوجائے اور حق و باطل کی تمیز میں کسی بھی قسم کا شک و شبہ نہ رہے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ، ہر سلیم الفطرت انسان حق کی نہ ڈوبنے والی سورج کی روشنی میں دیوار کی تحریر پڑھ کر اپنی راہ آسانی کے ساتھ منتخب کر سکتا ہے اور کرتا آرہا ہے۔ انسانوں کے گروہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نیکی کے قافلے میں کسی وجہ سے شامل تو ہوجاتے ہیں لیکن جن کی فطرت میں کجی ہوتی ہے اور جو بدی کی طرف طبعی میلان رکھتے ہیں، وہ منافقت سے کام لینا شروع کردیتے ہیں اور فلسفیانہ موشگافیوں کے ذریعے باطل پر حق کا پردہ تاننے کی کوشش کرنے لگ جاتے ہیں، حق کی طرف جانے والی واحد راہ کے آس پاس پگڈنڈیاں بنا کر اسے بھی نیکی کی راہ شمار کرانا شروع کر دیتے ہیں۔ حق اور نیکی کو واحد تسلیم کر کے، صرف اس کے حصول کے لئے طریقہ ء کار میں اختلاف کا نام دے کر کھلے عام باطل پرستوں کو بھی، ان کے ساتھ اپنی فطری میلان کی وجہ سے، حق کا متلاشی باور کرانے لگتے ہیں۔
آج کا دور ایک طرح سے قدرت کی نشانیوں کا تیزی کے ساتھ ظاہر ہونے والا دور ہے۔ فطرت انسانوں پر اپنی ہر چیز آشکار کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ایسے میں حق و باطل کی ازلی جنگ بھی نئے نئے روپ دھار چکی ہے۔ باطل پرست لوگ روایتی انداز ترک کر کےجدید وسائل اور آلات کے ساتھ حق پر غلبہ پانے کے لئے نت نئی چال چل رہے ہیں۔ لیکن افسوس حق پرست خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، الکتاب کی شکل میں ایک روشن سورج کے ہوتے ہوئے بھی دیوار کے لکھے کو پڑھنے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور حق کو سرنگوں ہوتا دیکھ کر ان کے دلوں میں کوئی جذبہ بیدار نہیں ہورہا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ باطل سے مرعوب ہوگئے ہیں یا اس کے پروپگنڈے کا شکار ہو کر مایوس ہوگئے ہیں۔ یاد رکھیں حق و باطل اور نیکی وبدی کی اس ازلی جنگ میں جیت حق کی ہی ہوگی اور باطل لاکھ کوشش کے باوجود بھی آخر میں شکست سے دو چار ہوگا اور یہ بھی یاد رکھیں کہ حق کی سربلندی کے لئے لڑی جانے والی اس جنگ میں طریقہ ء کار کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ لڑائی ایک طرف اصول و ضوابط، انصاف اور ایمانداری تو دوسری طرف بے اصولوی، انا اور ضد ، بے انصافی بے ایمانی اور عیاری کے درمیان ہے۔ اب یہ دیکھنا تمام انسانوں کا کام ہے کہ حق و باطل کی اس ازلی جنگ میں وہ کس طرف کھڑے ہیں۔
0 Comments