اسریٰ اور معراج کا سفر :سائنسی تحقیقات کی روشنی میں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر نامہ کی اہمیت: سفر معراج کے تناظر میں
از:عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)مالیگاﺅں
ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک انسان مصروفِ سفر ہے۔انسان کا سفر علم ِالٰہی سے شروع ہوتا ہے۔علم ِالٰہی سے عالم ِارواح کا سفر،عالم ِارواح سے باپ کی پُشت کا سفر،پُشت ِ فادر سے رحم ِ مادر کا سفر اور پھر رحم ِ مادر سے دنیاوی سفر۔ اس سفر کا اختتام خالق کائنات کی بارگاہ میں پہنچنے پر ہوگا۔ آج بھی انسانی سفر کا یہ سلسلہ دراز ہے۔ لوگ اپنے سفر نامے بھی تحریر کرتے ہے۔ان سفر ناموں میں سفیر اپنے مشاہدات، تحقیقات اور موجودہ حقائق کو تحریر کرتا ہے ۔ہر سفیر اپنے تجربات و مشاہدات ، نتائج وحقائق اور اپنی آرا ونظریات کی روشنی میں اپنے سفرناموں کو سپرد قلم کرتا ہے۔ ساتھ ہی قدرت کے سربستہ رازوں کو عیاں کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ دنیا میں متعدد سفرنامے لکھے گئے اور لکھے جا رہے ہیں۔ مثلاً: تاریخی سفر نامے، تہذیبی وثقافتی سفر نامے ، تجارتی سفر نامے، ادبی سفرنامے، عالمی سفر نامے، تبلیغی سفر نامے اور تفریحی سفر نامے وغیرہ وغیرہ۔ہر سفر نامے کی قدر وقیمت اپنی جگہ مسلم ہے۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ سفرناموں کی حیثیت کب تک قائم رہے گی؟ دنیا اس سے کب تک استفادہ کرسکے گی؟اکناف عالم میں یہ سفرنامے کب تک اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں گے؟جواب بالکل سیدھا اور صاف ہے کہ جن مقامات کا سفر کیا گیا ہے جب تک ان مقامات کا وجود قائم رہے گا تب تک ان سفر ناموں کی حیثیت باقی رہے گی ،بعد میں وہ صرف علمی وتاریخی ورثہ بن جاتے ہے۔
سفر کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک سفر وہ ہوتا ہے جو انسان خود کرتا ہے اور دوسرے وہ سفر جو کسی کی دعوت یا بُلانے پر ہوتا ہے۔ رسول اکرم ﷺنے اپنی حیات مبارکہ میں متعدد اسفار فرمائے۔ ان اسفار میں مرکزی حیثیت ”سفر معراج “ کو حاصل ہے۔ یہ سفر سیاح لامکاں ﷺ نے خود نہیں کیابلکہ خالق ارض وسما نے اپنے محبوب مکرم کو لامکاں کا سفر خود کروایا۔ خالق کائنات نے اس ایک سفر میں وجہِ تخلیق کائنات کو دو سفر کرائے۔ ایک وہ سفر جب نبی مکرم، فخر مجسم، شافع امم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مسجد اقصیٰ تک تشریف لے گئے جو ”سفر اسرائ“ ہے اور دوسرا سفر وہ ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمان و مکان کی حدوں سے بلند ہو کر سدرة المنتہیٰ اور عرشِ معلّٰی سے بلند ہوکر لامکاں تشریف لے گئے یہ ”سفر معراج“ ہے۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب رب تعالیٰ اپنے حبیب کو لامکاں بلانا چاہتا تھا تو پھر مکہ سے بیت المقدس تک کا سفر کیوں کرایا گیا؟براہِ راست اُم ہانی کے مکان سے سواری سدرة المنتہیٰ کیوں نہیں پہنچ گئی؟اگر اس سوال پر غور وخوض کیا جائے تو اسلامی تاریخ میں ہمیں ایسے دو واقعات اور نظر آےئنگے جن میں آسمان سے زمین پر آنا اور زمین سے آسمان کی طرف جانا ثابت ہے۔ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام جنت سے زمین پر تشریف لائے اور روح اللہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام زمین سے آسمان کی طرف اُٹھائے گئے ۔ تاریخ اسلام میں آنا تو ایک واقعے سے ثابت ہے مگر جانا دو واقعے سے۔ان دونوں واقعات میں جانے کی جگہ مشترک ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی آسمان کی طرف اٹھائے گئے تو بیت المقدس کی سرزمین سے اور معراج کے دولہا ،سیاح لامکاںا ﷺبھی آسمان پر بُلائے گئے تو بیت المقدس کی دھرتی سے۔
ان واقعات کو پڑھنے کے بعد گزشتہ کئی سالوں سے ایک سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟وہ رب جو ”کُن “فرماکر ساری دنیا کی تخلیق فرمانے کی قدرت رکھتا ہے کیاوہ اس بات پر قادر نہیں کہ مکہ مکرمہ کی سرزمین سے ہی اس رسول کو قرب خاص میں بُلایا جاتا جو وجہِ تخلیق کائنات ہیں؟ یقینا رب قادر ِمطلق ہے، وہ ہر چاہے پر قادر ہے مگر اس کے کاموں میں صدہا حکمتیں ہیں، حساس روحیں ان حکمتوں کا ادراک کرلیتی ہیں اور قدرت کی طرف سے عطا کردہ اشاروں کنایوں میں غوروخوض کے ذریعے قدرت کے رازِ سربستہ کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور جو کوشش کرتا ہے وہ گوہر مراد کو پا لیتا ہے۔ اسی لیے اللہ پاک نے قرآن کریم میں دو سو پچاس مقامات پر تحقیق وتفتیش اور فکروعمل کی طرف رغبت دلائی ہے۔ ذہن میں پیدا اس خلجان کا جواب مجھے ماہ رمضان 2014ء میں روزنامہ انقلاب ممبئی میں شائع ہونے والے قسط واری مضمون ”انبیاء سیریز“ میں ملا۔ اس میں یہ جملہ لکھا تھا جس کا مفہوم ہے
”خلا میں جانے کے لیے راستہ بیت المقدس سے ہوکرگزرتا ہے اور تمام خلائی سیارے اسی راستے سے ہوکر گزرتے ہیں۔“
اس سائنسی تحقیق کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ جنت سے دنیا میں آنے اور جانے کا راستہ ہے۔(واللہ ا علم باالصواب) مگر افسوس اس بات کا ہے کہ غیروں نے راستہ دریافت کیا اس لیے وہ محض ایک خلائی راستہ ہے اور اگر مسلمان قرآن کریم کی روشنی میں اس راستے کی تلاش کرتے تو ہم دنیا کوخلائی راستہ بھی بتاتے اور قرآن واحادیث کی تعلیمات بھی۔اس قسم کی اسلامی دعوت کے یقینا مثبت اور امید افزا نتائج برآمد ہوتے ۔ شاید یہی حکمت رہی ہو خدائے تعالیٰ کی کہ دونوں انبیائے کرام کوایک جگہ سے آسمان پر بلایاگیا ۔
اس سفر کا دوسرا حصہ سفرِ معراج ہے۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ سفر نامے کی حیثیت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک جس چیز کا مشاہدہ کیا ہو وہ باقی رہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو کن کن چیزوں کا مشاہدہ کروایا۔ اس ضمن میں احادیث مبارکہ ہماری رہ نمائی کررہی ہے کہ سفر معراج میں رسول گرامی وقار ﷺ نے جنت کی سیر کی اور جہنم کا مشاہدہ کیا۔یعنی ایسی نادر ونایاب چیزوں کی سیر اور مشاہدہ کیا جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ ہی کسی کے وہم وگمان میں ان کا تصور آیا ہے۔ اور سب سے بڑی بات مصطفی کریم ﷺ نے اپنے ماتھے کی آنکھوں سے اپنے رب کا دیدار کیا۔ جنت وجہنم رب کی پیدا کردہ ہے اور رب جب تک چاہے گا ان کا وجود باقی رہے گا اور رب کی ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ معلوم ہوا مصطفی کریم ﷺ کے سفر نامے کی حیثیت زمانی یا لمحاتی نہیں ہے بلکہ اس سفر نامے کی حیثیت ہمیشہ کے لیے مسلم ہے بلکہ یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ جب تک رب کی ذات موجود ہے تب تک اس سفر نامے کی حیثیت باقی رہے گی اور رب کی ذات ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔
ایک اور نکتہ قابل غور ہے کہ سفیر خود سفر کرتے ہیں اور اپنا سفر نامہ خود لکھتے ہیں۔ یہاں سفر کرایا بھی خدا نے ہے اور سفر نامہ بیان بھی خدا نے کیا ۔اور ایسی کتاب میں بیان کیا جو اس کا کلام ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ اب ہمیں چاہئے کہ اس سفر سے متعلق قرآن کریم واحادیث رسولﷺمیں جو خطوط بتائے گئے ہیں ،ان ہی پر اپنی زندگی گزاریں اور آخرت میں جنت کی سیر اور دیدارِ الٰہی سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی کریں۔ اللہ پاک علم وعمل کی توفیق عطا فرمائے۔
0 Comments