مولانا سعید اعجاز کامٹوی اور ان کی سعادت افروز نعتیہ و سلامیہ شاعری
.... محمد حسین مشاہد رضوی
(11 شعبان المعظم یومِ وصال کے موقع پر خراج عقیدت)
فصیح اللسان حضرت علامہ مولانا حافظ قاری الحاج محمد سعید اعجازؔ کامٹوی علیہ الرحمہ کی ولادتِ باسعادت 1929ء میں اُن کے آبائی مکان محلہ لکڑ گنج ، کامٹی میں ہوئی۔ آپ کے والدِ گرامی کا نام محمدُ اللہ تھا۔ اور والدہ کانام آسیہ بی۔مولانا محمد سعید اعجازؔ کامٹوی علیہ الرحمہ کے والدِ گرامی محمدُ اللہ صاحب نے شہزاد پور، ضلع فیض آباد(اتر پردیش) سے ہجرت کرکے کامٹی( ناگپور، مہاراشٹر) میں مستقل سکونت اختیار کرلی ۔ آج بھی شہزادپور میں آپ کے رشتہ دار آباد ہیں۔ آپ کا خانوادہ اولیاے کرام اور اہلِ طریقت و تصوف سے بے پناہ عقیدت و محبت کے جذبات سے سرشار تھا۔ خاندانی روایات کے مطابق حضرت مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی علیہ الرحمہ کی پیدایش سلسلۂ نقش بندیہ کے بزرگ حضرت سید امام علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی دعاؤں کے بعد ہوئی۔حضرت سید امام علی شاہ علیہ الرحمہ نے آپ کے والدِ گرامی کو اس بات کی تاکید فرمائی تھی کہ آپ کے گھر پیدا ہونے والے بچّے کا نام ’’محمد سعید ‘‘ رکھا جائے ۔چناں چہ حضرت سید صاحب علیہ الرحمہ کی اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئےآپ کے والد نے نومولود کانام ’’محمد سعید‘‘ رکھا۔حضرت سید امام علی شاہ علیہ الرحمہ کا تعلق فوج سے تھا اور آپ پنجاب رجمنٹ سے تھے ۔اُس وقت کامٹی میں تعینات فوج کی امامت کے عہدے پر فائز تھے،اور ایک طویل عرصہ آپ نے کامٹی میں گذارا۔اُس دوران آپ کی ذات مرجعِ خلائق تھی۔ عوام و خواص سبھی آپ سے اکتسابِ فیض کیا کرتے تھے۔
حضرت مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی علیہ الرحمہ نے جب شعور کی منزل میں قدم رکھا تو خاندانی روایات کے مطابق آپ حضرت سیدامام علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ سے سلسلۂ نقش بندیہ مجددیہ میں بیعت ہوئے ۔علامہ ارشد القادری نور اللہ مرقدہٗ کے برادرِ گرامی حضرت فیض العارفین مولانا شاہ غلام آسی صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ نے آپ کو اپنی خلافت و اجازت سے نوازا تھا۔
حضرت مولانا محمد سعید اعجازؔ کامٹوی علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم و تربیت کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے لیے ناگپور کی مرکزی دینی درس گاہ جامعہ عربیہ ناگپور میں داخل کیے گئے۔ اُس عہد کے ممتاز اساتذۂ کرام کے زیرِ سایہ رہ کر آپ ۱۹۴۹ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔علامہ ارشد القادری نور اللہ مرقدہٗ ، حضرت فیض العارفین مولانا شاہ غلام آسی صاحب ، فقیہ الہند حضرت مفتی عبدالرشید خاں فتح پوری جیسے اجلہ علماے کرام کا شمار آپ کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔
فصیح اللسان مولانا محمد سعید اعجازؔ کامٹوی علیہ الرحمہ ایک ساحر البیان خطیب کی حیثیت سے نہ صرف کامٹی اور ناگ پور بلکہ پورے ملک میں مشہور و معروف اور بے پناہ مقبول تھے۔پورے ملک میں آپ جہاں جاتے اپنے مخصوص لب و لہجے کی وجہ سے بڑی پسندیدگی سے سماعت کیے جاتے۔ آپ کے منفرد اندازِ خطابت کے اپنے تو اپنے غیربھی گرویدہ تھے۔ آپ کی دل نشین تقاریر کو سماعت کرکے نہ جانے کتنے گمراہ انسانوں نے توبہ کی ۔ اور باطل عقائد کے پرستار اہلِ سنت کے دامن میں داخل ہوئے۔ آپ اپنے بیانات میں اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ ساتھ عقیدے کی پختگی پرہمیشہ زور دیا کرتے تھے۔سلسلۂ عالیہ نقش بندیہ مجددیہ کے بعض پیروکاروں کی بہ نسبت آپ کے اندر عقیدے کے نام پر سمجھوتے کا مزاج ذرّہ بھر کو نہ تھا۔ امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا بریلوی کے مسلکِ عشق و ایمان کے تحفظ و استحکام میں آپ زندگی بھر مصروف و مشغول رہے۔
آپ ایک اچھے حافظِ قرآن بھی تھے۔ ابتدا میں کئی سال تک مسجد وزیرصاحب نیا بازار ، کامٹی میں آپ نےبڑی خوش الحانی سے نمازِ تراویح پڑھائی ۔راے پور ، چھتیس گڑھ میں بھی کافی سالوں تک تراویح سنائی۔ بعدہٗ مختلف علاقوں میں تراویح کے لیے بلائے جاتے رہے۔ حتیٰ کہ جب ممبئی میں آپ تراویح سناتے تھے تو بیرونِ ملک سے محبین آپ کی اقتدا میں تراویح ادا کرنے کے لیے آتے رہے ۔تراویح میں آپ جب اپنے مخصوص انداز میں قرآن کی تلاوت فرماتے تو ایک روحانی سماں پیدا ہوجاتا۔
مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی علیہ الرحمہ بہترین عالم، حافظ، قاری، ادیب، خطیب، طبیب، محقق، دانش و ر، مدرس، مصلح ، مفکر، مدبر، تاجر اورسیاح کے ساتھ ساتھ ایک مایۂ ناز شاعر بھی تھے، اور خطابت ہی کی طرح شاعری بھی آپ کی شخصیت کا منفرد شناخت نامہ کہلاتی ہےکامٹی میں شعر اودب کا ایک اچھا خاصا حلقہ تھا ۔ جس سے آپ کا متاثر ہونا بعید نہ تھا۔ آپ کی فطرت میں شعریت تھی ۔ لہٰذا ماحول ملتے ہی آپ میدانِ شاعری میں قدم رنجہ ہوگئے ۔ اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر جلد ہی اپنےمعاصرین میں ممتاز ہوگئے۔
شعر گوئی میں آپ نے تقدیسی شاعری یعنی حمد و مناجات،نعت و مناقب، سلامکو اپنی فکر و نظر کا مرکز و محور بنایا اور بے طرح کامیاب رہے۔ نعتیہ ادبکے ذخائر میں آپ نے جو اضافے کیے ہیں وہ اپنے آپ میں مثالی حیثیت کے حامل ہیں ۔ آپ بڑے زود نویس اور زود گو شاعر تھے ۔ آپ کے یہاں آمد آمد کا وہ چشمۂ جاری رواں دواں رہا کرتا تھا کہ بارہا مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ آپ کے اجلاس اگرایک دن میں تین مختلف اوقات اور مقامات پر ہیں تو تینوں جگہوں پر آپ نیا نعتیہ کلام اور تازہ ترین سلام پیش فرمایا کرتے تھے۔آپ کی آواز میں بلا کی نغمگی ، ترنم اور کشش تھی۔آپ دینی اجلاس کے علاوہ اگر مشاعروں میں کہیں کلام سناتے تو وہاں حاصلِ مشاعرہ رہا کرتے تھے۔ لوگ اکثر صرف آپ ہی کو سننے کے لیے مشاعروں میں آتے اور منتظمین مجمع جمع رکھنے کے لیے آپ کو آخر میں پڑھاتے ۔آپ کے موے قلم سے نکلے ہوئے بہت سارے کلام ایسے بھی ہیں جو نہ صرف ملک بھر میں مقبول ہوئے بلکہ دیگر ممالک میں بھی ان کو بڑے ذوق و شوق سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ کئیعالمی شہرت یافتہ نعت خواں حضراتنے بھی آپ کی نعتیں بڑے خوب صورت انداز میں پیش کی ہیں۔
حضرت مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی تاعمر رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کے گن گاتے رہے۔ حتیٰ کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے منسوب تاج دارِ مدینہ کانفرنس، ممبئی میں دُرود و سلام اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہوئے ہی آپ کی طبیعت ناساز ہوئی اور آپ 22 دسمبر 1996ء کو اس دارِ ناپائدار سے رخصت ہوتے ہوئے اپنے اش شعر کی عملی تصویربن گئے ؎
نکلی ہے روح ذکرِ جمالِ نبی کے ساتھ
ہم گوشۂ لحد میں چلے روشنی کے ساتھ
وصال سے دوروز قبل مالیگاؤں میں اولیا مسجد نہال نگر کے پاس منعقدہ ایک جلسۂ عام میں اپنی مخاطبت کے دوران آپ نے ایک قطعہ سنایا جسے اس مقام پر درج کرنا راقم مناسب خیال کرتا ہے ؎
خدانخواستہ پھر یہ گھڑی ملے نہ ملے
یہ نیک لمحہ تمہیں پھر کبھی ملے نہ ملے
نبی کی بزم ہے پڑھتے رہو دُرود و سلام
پھر اس مقام پہ یہ زندگی ملے نہ ملے
کسے خبر تھی کہ اب اہل سنت کا یہ فصیح اللسان اور ساحر البیان خطیب و شاعر اپنے مالکِ حقیقی سے ملنے والا ہے ۔ حضرت مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کے وصال کی خبر سُن کر بار بار یہ مصرعے ذہن و قلب میں گونجتے رہے اور یہ احساس پروان چڑھنے لگا کہ حضرت اعجازؔ صاحب کامٹوی کو اس امرِ ربی کا کسی نہ کسی درجے میں کشف ہوگیا تھا۔
۲۳؍ دسمبر ۱۹۹۶ء کو آپ کی نعش ممبئی سے کامٹی لائی گئی۔ہزاروں افراد نے جنازے میں شرکت کی ۔آپ کو کامٹی کے مسلم قبرستان نزد ریلوے لائن میں دفن کیے گئے۔معاصر اخبارات کی رپورٹس کے مطابق کامٹی میں کسی کے جنازے میں ایسا جم غفیر نہیںدیکھا گیا جیسا کہ مولانا سعید اعجاز کامٹوی کے جلوسِ جنازہ میں تھا۔
حضرت مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی اپنے عہد کی ایک ممتاز اور ہر دل عزیز شخصیت کانام ہے۔ آپ بہ یک وقت کئی خوبیوں اور صفات کاعطر مجموعہ تھے۔ آپ عالم، حافظ، قاری، شاعر، ادیب، خطیب، طبیب، محقق، دانش و ر، مدرس، مصلح ، مفکر، مدبر، تاجر ، سیاح اور ان سب سے بڑھ کر پُرکشش شکل و صورت کے مالک ایک اچھے او رمقبول ترین عاشقِ رسول تھے۔
مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی صاحب کی ان گوناگوں اور متنوع خوبیوں میں سے ایک نمایاں وصف آپ کی شعر گوئی ہے جو اس وقت راقم کی تبصراتی کاوش کا عنوان بننے جا رہی ہے۔ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ زود نویسی اور زود گوئی میں آپ اپنے عہد کے شاعروں میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔آپ کے یہاں آمد آمد کا وہ چشمۂ جاری رواں دواں رہا کرتا تھا کہ بارہا مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ آپ کے اجلاس اگرایک دن میں تین مختلف اوقات اور مقامات پر ہیں تو تینوں جگہوں پر آپ نیا نعتیہ کلام اور تازہ ترین سلام پیش فرمایا کرتے تھے۔ افسوس صد افسوس! کہ اب تک آپ کا کوئی وقیع شعری مجموعہ منصۂ شہود پر جگمگا نہیںسکا ۔ ہاں! فداے اہل سنت مولانا عبدالحئی نسیم القادری (مقیم حال ڈربن ساوتھ افریقہ ) کا مرتبہ محض چند نعتوں اور سلام پر مشتمل ایک مختصر سا کتابچہ۸۰ ؍ کی دہائی میں مدرسہ اہل سنت تجوید القرآن واقع دفتر آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء شاخ مالیگاؤں کے زیرِ اہتمام شائع ہوکر مقبول ہوچکا ہے۔ جاننا چاہیے کہ حضرت مولانا اعجازؔ صاحب’’غالب‘‘ کے ’’اسد‘‘ کی طرح اپنے نام’’اعجاز‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’سعید ‘‘ کو بھی کبھی کبھارتخلص کے طور پر استعمال فرمایا کرتے تھے۔
مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی علیہ الرحمہ تاعمر رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کے گن گاتے رہے۔ حتیٰ کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے منسوب تاج دارِ مدینہ کانفرنس، ممبئی میں دُرود و سلام اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہوئے ہی آپ کی طبیعت ناساز ہوئی اور آپ اس دارِ ناپائدار سے رخصت ہوتے ہوئے اپنے اش شعر کی عملی تصویربن گئے ؎
نکلی ہے روح ذکرِ جمالِ نبی کے ساتھ
ہم گوشۂ لحد میں چلے روشنی کے ساتھ
وصال سے دوروز قبل مالیگاؤں میں اولیا مسجد نہال نگر کے پاس منعقدہ ایک جلسۂ عام میں اپنی مخاطبت کے دوران آپ نے ایک قطعہ سنایا جسے اس مقام پر درج کرنا راقم مناسب خیال کرتا ہے ؎
خدانخواستہ پھر یہ گھڑی ملے نہ ملے
یہ نیک لمحہ تمہیں پھر کبھی ملے نہ ملے
نبی کی بزم ہے پڑھتے رہو دُرود و سلام
پھر اس مقام پہ یہ زندگی ملے نہ ملے
کسے خبر تھی کہ اب اہل سنت کا یہ فصیح اللسان اور ساحر البیان خطیب و شاعر اپنے مالکِ حقیقی سے ملنے والا ہے ۔ حضرت مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کے وصال کی خبر سُن کر بار بار یہ مصرعے ذہن و قلب میں گونجتے رہے اور یہ احساس پروان چڑھنے لگا کہ حضرت اعجازؔ صاحب کامٹوی کو اس امرِ ربی کا کسی نہ کسی درجے میں کشف ہوگیا تھا۔ حضرت اعجازؔصاحب کی ذات میں جو عاجزی ، انکساری، ملنساری ، شفقت و محبت اور خلوص و للہیت تھی وہ اب خال خال ہی نظر آتی ہے ۔ مدرسہ اہل سنت تجوید القرآن کے اجلاس میں آپ بارہا تشریف لاتے تھے ۔ ناچیز وہیں تعلیم حاصل کرتاتھا جب جب مَیں نے اعلیٰ حضرت امام احمدرضا محدث بریلوی کے کلام کے بعد آپ کا مرقومہ کلام سنایا آپ نے حوصلہ افزائی اور پذیرائی فرماتے ہوئے انعام و اکرام اور دعاؤں سے نوازا۔ اعجازؔ صاحب کی طرح دیگر باوقار علماے اہل سنت کی نوازشات کا صدقہ ہے کہ مجھ جیسا بے بضاعت اور کم علم، دین کی خدمت کے لائق بن سکا۔
حضرت مولانا سعید اعجاز ؔ کامٹوی نے اپنے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار کا وسیلہ نعت گوئی کوبنایا اور میدانِ شعروادب میں فکر وفن کے وہ اجلے اور روشن نقوش ثبت فرمائے کہ دل سے بے ساختہ سبحان اللہ ! کی داد نکلتی ہے۔ آپ نے اپنی نعتیہ شاعری کے ذریعہ امام احمدرضاقادری برکاتی بریلوی کے مسلکِ حق و صداقت اور پیغامِ عشقِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے استحکام اور فروغ و ارتقاکاکام بھی لیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وصال سے چند روز قبل مالیگاؤں میں اولیا مسجد کے پاس ایک جلسۂ عام میں آپ نے اپنے مخصوص لب و لہجہ میں ایک خوب صورت اور دل کش نعت پیش کی جس کا ایک شعر یوں تھا کہ ؎
مسلکِ حق کے تحفظ کی ضمانت ہے یہ نام
اس لیے دوستو! مَیں نامِ رضا لیتا ہوں
اسی طرح وقار چوک پرمنعقدہ جلسے میں ایک قطعہ بھی ارشاد فرمایا جس میں مرکزِ اہل سنت بریلی شریف کا بڑی عقیدت و محبت سے ذکر کیا گیا ہے ؎
چراغِ عقیدت جلا کے تو دیکھو
اُجالے کی دنیا میں آکے تو دیکھو
یہیں سے مدینہ نظر آئے گا
بریلی کا سرمہ لگا کے تو دیکھو
متذکرۂ بالاشعر اور قطعہ سے یہ امر ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے اخیر عمر تک مسلکِ اعلیٰ حضرت اور مرکزِ اہل سنت بریلی شریف سے اپنی گہری قلبی و فکری وابستگی و پیوستگی کا برملا اظہار بھی کیا ، جو لائقِ تحسین و آفرین ہے۔
مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کی شاعری عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاایک ایسا دل کش اور دل نشین طرزِ اظہار اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جو قلب و نظر کو صیقل و مجلا کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جذبات و خیالات اور محسوسات کی جو بلندی ، شگفتگی اور پاکیزگی آپ کے کلام کی زیریں رَو میں پنہاں ہے وہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں آپ کے مخلصانہ اور مومنانہ رویّوں کی غمازی کرتی ہیں ، چند اشعار نشانِ خاطر فرمائیں ؎
کون کہتا ہے کہ مرقد میں اندھیرا ہوگا
وہ جو ہوں گے تو اُجالا ہی اُجالا ہوگا
صدر اس کے مرے سرکارِ دوعالم ہوں گے
اُن کے دیوانوں کا محشر میں بھی جلسہ ہوگا
غمِ دوراں کی کڑی دھوپ سے بچنے کے لیے
سایۂ گیسوے سرکار میں آلوں تو چلوں
مرے ذوقِ نظر پر ہوگئی رحمت محمد (ﷺ)کی
مدینہ دور ہے آنکھوں میں ہے صورت محمد (ﷺ)کی
جہاں ہوتی ہے انساں کو ندامت اپنے عصیاں پر
اسی منزل کا شاید نام ہے رحمت محمد (ﷺ)کی
میرا دل بے نیازِ صلہ ہے ، دل میں کوئی تمنا نہیں ہے
جب سے دیکھا ہے باغِ مدینہ ، سر میں جنت کا سودا نہیں ہے
سعید اعجازؔ کامٹوی صاحب نے اپنے شعروںمیں لفظ و بیان، جذبہ و تخیل اور فکر وفن کے جو جادو جگائے ہیں وہ اسلوبیاتی لحاظ سے بھی بڑی عمدگی اور نفاست کے حامل دکھائی دیتے ہیں ۔ انوکھی لفظیات کے انسلاکات ، تراکیب اور پیکرات کا فن کارانہ استعمال آپ کی قادرالکلامی کو عیاں کرتے ہوئے آپ کے ایک صاحبِ فکر و نظر اور لب و لہجے کے شاعر ہونے کا اشاریہ بھی ہیں۔ علم و فن کی گہرائی و گیرائی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و سچائی سے مملو آپ کے نعتیہ اشعار میں جو دل آویز کیفیتیں پیدا ہوگئی ہیں وہ متاثر کن ہیں۔ خیال آفرینی اور مضمون آفرینی کی سطح پر بھی آپ کی شاعری ندرتِ اظہار اور جدتِ ادا کے جواہر پارے اپنے اندر سموئے ہوئے فصاحت و بلاغت کادل کش مجموعہ بن گئی ہے ؎
ہیں محوِ خرام آقا اب میرے تصور میں
اے عمرِ رواں میری للہ ٹھہر جانا
بس عشقِ محمد(ﷺ) کے شانے کی ضرورت ہے
مشکل نہیں گیسوے دوراں کا سنور جانا
محفلِ نور شبِ غم میں سجا لیتا ہوں
دل کی آواز سے آواز ملا لیتا ہوں
صبح کے وقت بہ فیضانِ نسیمِ طیبہ
اپنے سرکار کے دامن کی ہَوا لیتا ہوں
شبِ غم نیند بھی آئی تو اِس امید پر آئی
کہ شاید خواب ہی میں دیکھ لوں صورت محمد (ﷺ)کی
معجزانہ کرم کے تصدق ، آپ کی ہر عنایت پہ قرباں
سر پہ امت کا سایا ہے لیکن ، جسمِ انور کا سایا نہیں ہے
روحِ پیغامِ سرورِ عالم
عین میم اور لام کیا کہیے
جامِ کوثر کی آرزو نہ رہی
ان کی نظروں کا جام کیا کہیے
ان کے رندوں کے نام آتا ہے
زاہدوں کا سلام کیا کہیے
حالِ اعجازؔ سے ہیں وہ واقف
پھر کسی سے پیام کیا کہیے
طویل بحرمیں لکھا گیا یہ کلام آپ کے منفرد لب و لہجے اور جذبہ و تخیل کے ساتھ ساتھ آپ کی قادرالکلامی کا روشن اشاریہ ہے ؎
سرزمینِ طیبہ کے ایک ایک گوشہ میں ، روحِ زندگانی ہے
کیا حسین منظر ہے ، صبح بھی معطر ہے ، شام بھی سہانی ہے
وہ محمّدِ عَرَبی (ﷺ) ، جس نے مقصدِ ہستی ، کُل جہاں کو سمجھایا
اُس کے عشق کی حد تک ، زندگی حقیقت ہے ، ورنہ اِک کہانی ہے
اشکِ دردِ فرقت کا ، راز پوچھتے کیا ہو؟ اے سعیدؔ یوں سمجھو!
چشمِ نم کے حلقےمیں رہ گیا تو موتی ہے ، بہہ گیا تو پانی ہے
نعت کے تقدس اور غزل کی رنگینیِ بیان کی آمیزش کے ساتھ سلامت روی سےمدحتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگارنگ گُل بوٹے کھلانا اعجازؔ صاحب کے شاعرانہ کمال کی دلیل ہے ؎
آنسوؤں کے تاروں سے،دامنِ شبِ غم کو، ہر نفس سجایا ہے،ہر طرح نکھارا ہے
ہم نے اپنی خلوت کو، حاصلِ محبت کو، کتنی دیدہ ریزی سے، انجمن بنایا ہے
شانِ بے نیازی جب اتنی نورتاباں ہے، التفات کا عالم، کون جانے کیا ہوگا؟
ایک بار گذرے تھے ،دور سے وہ بے پردا، اور میری دنیا میں آج تک اجالاہے
گرمیِ بیاباں کیا؟ خنکی چمن کیسی؟ اب فضاے عیش و غم ،جی کو چھو نہیں سکتی
حُسن کے تلوّن کا رنگ ہم نے دیکھا ہے ،اب ہماری نظروں میں دھوپ ہے نہ سایا ہے
اس نعت کا یہ شعر اپنے اندر معنویت اور واقعیت کا اِک جہان لیے ہوئےہے۔ بالکل اچھوتے اور البیلے انداز میں آپ نے انسانی عظمت و رفعت کی طرف خوب صورت اشارہ کیا ہے ؎
پھول کی مہک مجھ میں ، خار کی کھٹک مجھ میں ، برق کی لپک مجھ میں، چاند کی چمک مجھ میں
میں نے ساری دنیا کے، ایک ایک ذرّے کا، اپنے دل کی دنیا کو آئینہ بنایاہے
زندگی سے متعلق الگ الگ فلسفے پائے جاتے ہیں ۔ لیکن جب عاشقِ رسول (ﷺ) زندگی کی حقیقت کو واشگاف کرتا ہے اور زندگی کو اُس کا اصل مرکز و محور یاد دلاتا ہے تو اُس کا انداز نرالااور تقدیسی لہروں کا حامل ہوجاتا ہے جو قلب و روح کو طہارت و پاکیزگی سے مستنیز کرتا ہے ؎
نورِ حق سے جوڑ رشتہ زندگی اے زندگی!
خود چمک اور مجھ کو چمکا زندگی اے زندگی!
الفتِ احمد(ﷺ) میں مٹ جا زندگی اے زندگی!
اپنے مرکز کی طرف آ زندگی اے زندگی!
آستانِ مصطفیٰ ہم پاکے سب کچھ پاگئے
بس اسی منزل پہ کھو جا زندگی اے زندگی!
جلوہ گاہِ سرورِ عالم کا عالم دیکھ کر
اپنا عالم آپ ہوجا زندگی اے زندگی!
دیدۂ جبریل کا سرمہ ہے جن کے در کی خاک
اُن کے در کی خاک ہوجا زندگی اے زندگی!
مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کے خامۂ مدحت نگار سے نکلی ہوئی ’’لکھتے لکھتے‘‘ ردیف پر مشتمل ذیل کی نعت بڑی متاثر کن اور پُر کیف ہے۔ تصویریت کا حُسن اور منظر کشی کاجمال شعر شعر سے ظاہر ہے ۔ بحر کی زیریں رَو میں پنہاں نغمگی اور موسیقیت بے ساختہ نعت گنگنانے پر مجبور کرتی ہے اور دل سے سبحان اللہ ! ماشآء اللہ کی داد نکلنا شروع ہوجاتی ہے ؎
میں نعت لکھوں اور ہوجائے تکمیل سفر لکھتے لکھتے
میں اپنے گھر سے جا پہنچوں سرکار کے گھر لکھتے لکھتے
تعریف نبی کے گیسو کی ، اور وصف نبی کے چہرے کا
میں شام کو لکھنے بیٹھوں اگر ہوجائے سحر لکھتے لکھتے
پھر اُن کے تبسم کا خاکہ الفاظ میں کچھ کچھ کھینچ سکوں
کھلتی ہوئی کلیوں پر میری پڑجائے نظر لکھتے لکھتے
احساس نبی کی عظمت کا ، کیا قلب میں ہے سبحان اللہ!
جب نامِ مبارک آتا ہے ، جھک جاتا ہے سر لکھتے لکھتے
پل بھر میں مرادِ دل پاؤں ، میں اُڑ کے مدینہ جا پہنچوں
اعجازؔ جو مجھ کو مل جائیں ، جبریل کے پر لکھتے لکھتے
’’روحِ کائناتﷺ‘‘ سے نمونے کے طور پر مزید چند اشعار نشانِ خاطر کریں اور شاعرِ اسلام مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کی نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ وارفتگی و شیفتگی کے ساتھ ساتھ شعری و فنی مہارت کا دل کش نظارا کیجیے ، سلاست و روانی ، ترنم و نغمگی، صداقت و سچائی ، جدت و ندرت ، ایجاز و تراکیب، صنائع لفظی و معنوی اور دیگر محاسن کی جلوہ گری ’’روحِ کائنات ﷺ‘‘ کے ورق ورق پر مسطور اور سطر سطر میں معمور ہے ؎
پھر آج صلِ علیٰ یاد آرہا ہے کوئی
مدینہ کعبۂ دل کو بنارہا ہے کوئی
مقامِ رفعتِ انساں بتارہا ہے کوئی
زمیں سے عرشِ معلیٰ پہ جارہا ہے کوئی
میں مالکِ جنت کا ، وہ جنت کا طلب گار
زاہد کی دُعا اور مرے دل کی دُعا اور
اِس شانِ سخاوت پہ سخاوت بھی نچھاور
دامن کو مرے بھر کے وہ کہتے رہے کیا اور؟
فکرِ وداعِ طیبہ بھی ہے حاضری کے ساتھ
کچھ غم بھی ہے شریک ہماری خوشی کے ساتھ
نور پھر نور ہے منوائے گا خود اپنا وجود
بشَری جامے میں رہ کر مرے سرور چمکے
حشر میں پھوٹی وہ اُمّیدِ شفاعت کی کرن
دھوپ نکلی ، وہ مرے شافعِ محشر چمکے
اُلجھن کا حل دھونڈ نکالیں زندہ دلی کی بات کریں
دھوپ غمِ دوراں کی کڑی ہے ، زُلفِ نبی کی بات کریں
خلد کی عظمت اپنی جگہ ہے ، اِس سے نہیں انکار مگر
کوے نبی پھر کوے نبی ہے ، کوے نبی کی بات کریں
معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کےنعتیہ و سلامیہ کلام سرحدوں کو توڑتے ہوئےبیرونِ ملک میں بھی پورے ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں ۔اس لحاظ سے حضرت عالمی شہرت یافتہ نعت نگاروں میں شمار کیے جانے کا مکمل استحقاق رکھتے ہیں۔ حضرت کے بیشتر کلام ایسے ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں’’نامعلوم‘‘ شاعر کے طور پر بھی شائع کیے جاتے ہیں۔ جن میںدو واضح اور بڑی مثال شہرۂ آفاق سلام ’’اے حبیبِ احمد مجتبیٰ دلِ مبتلا کا سلام لے‘‘ اور ’’چندا کرے تم کا سلام‘‘ ہے ۔ اسی طرح ’’آنسوؤں کے تاروں سےدامنِ شبِ غم کو ہر نفس سجایا ہےہر طرح نکھارا ہے‘‘ اور ’’ سرزمینِ طیبہ کے ایک ایک گوشہ میں ، روحِ زندگانی ہے ‘‘کا شمار کیا جاسکتا ہے۔ نیز ’’دل کی مراد پائیں گے آج نہیں تو کل سہی‘‘ بھی آپ کے مشہورِ زمانہ شہرۂ آفاق کلام میں سے ایک ہے۔
مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کی شاعری کی خصوصیات میں سے ایک قابلِ لحاظ پہلو یہ بھی ہے کہ آپ نے اردو زبان ، محاورات اور روزمرہ کے استعمال کے ساتھ عربی ، فارسی اور پوربی بولی کے انسلاکات سے اپنے کلام کو متنوع رچاو کا آئینہ دار بنادیا ہے۔ کئی نعتیں تو مکمل پوربی بولی میں ہیں اور بعض نعتوں میں اردو اورفارسی لفظیات کے ساتھ پوربی بولی کی ادیبانہ آمیزش کی ہے، جو آپ کے پیرایۂ زبان و بیان کی ایک مخصوص لَے ہے ۔ جاننا چاہیے کہ آپ نے جن بحروں کا انتخاب کیا ہے وہ اپنے اندر بلا کی نغمگی ، غنائیت اور موسیقیت لیے ہوئے ہیں ۔ آپ جب خود اپنے نعتیہ کلام کو مخصوص طرزِ ادا اور مترنم آہنگ کے ساتھ سناتے تھے تو مجمع پر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی تھی لوگ دیر تک آپ کی متاثر کن ترنم ریزی کے سبب جھومتے رہا کرتے تھے۔ زبان و بیان کے متنوع رچاو اور پوربی بولی کے چند اشعار نشان خاطر فرمائیں ؎
جانے کیا بات ہے گل زار بہت مہکت ہے
پھول کا کیا کہوں ہر خار بہت مہکت ہے
تمہرا دیس تو سرکار سمندر وہی پار
پر یہوٗ پار بھی وہوٗ پار بہت مہکت ہے
………
ہاے سدھ بدھ نہ رہی ساری فکر بھول گئوں
اپنا گھر بھول گیوں اپنا نگر بھول گئوں
موری ای بھول پہ یادَن بھی نچھاور اعجازؔ
آیوں طیبہ میں تو نکلے کی ڈگر بھول گئوں
………
مورکھ ہے حیاتِ آقا میں کچھ شک جو کوئی دکھلاوت ہے
تیرہ سو برس کے بعد بھی اُوٗ امت پہ کرم فرماوت ہے
سرکار میں تم کا مان گئوں ، مختار کا مطلب جان گئوں
ای چاند اُدھر جھک جاوت ہے جَے ہَے پور اشارا پاوت ہے
………
مدت سے یہ دل ہے بے تابِ ہجراں ، بے تابِ ہجراں
سنسان دن ہے تو راتیں ہیں ویراں ، راتیں ہیں ویراں
ایک ایک لمحہ ہے محشر بداماں ، محشر بداماں
کیسے کٹے جیون کی لمبی ڈگریا
تم بِن اے آمنہ کے لال
لہر لہر کرے تمہرے دوش پر ۔۔۔
چرخِ نبوت کے تم ماہِ اختر ، تم ماہِ اختر
تم سے ہی چمکے ہیں مانندِ اختر ، مانندِ اختر
صدیق و فاروق و عثمان و حیدر ، عثمان و حیدر
چاروں رکھیں پلکن پہ تمہرا چرنوا
پائن عروج و کمال
لہر لہر کرے تمہرے دوش پر ۔۔۔۔۔
سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں صلاۃ و سلام کا نذرانہ پیش کرنا اہلِ عقیدت و محبت کا شیوہ ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود اللہ جل شانہٗ اور اس کے مقرب فرشتوں کا بھی یہ معمول ہے ، چناں چہ ارشادِ پاک ہے : بے شک اللہ اور اس کے فرشتے دُرودبھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر تو اے ایمان والو! تم بھی دُرود بھیجو اور خوب سلام(سورہ احزاب)۔
اس آیۂ کریمہ کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو جملہ اعمال میں دُرودِ پاک کی فضیلت اور اہمیت ایمان و عقیدے کی سلامتی کے ساتھ اولیت کا درجہ رکھتی ہے۔ جب تک نعت نگار شاعر بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نذرانۂ سلام پیش نہیں کرے گا وہ میرے نزدیک ناقص نعت گو شاعر کہلائے گا۔ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قادری برکاتی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا سلام ؎
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
تو آفاقی شہرت اور مقبولیت کا حامل ہے ۔ بیش تر شعراے گرامی نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہدیۂ سلام نچھاور کرتے ہوئے اپنی عقیدت مندی اور سعادت مندی کا ثبوت دیا اور اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو صیقل کیا ہے ۔ مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کا یہ انفرادی اور توصیفی پہلو ہے کہ آپ نے مختلف ہیئتوں اور ٹیکنک کا استعما ل کرتے ہوئے سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عظمت نشان میں صلاۃ و سلام کا تحفۂ خلوص و محبت لٹا یاہے۔ عقیدے اور عقیدت کی خوب صورت پرچھائیوں کے جلو میں فکر و فن کے جو دل کش نقوش صنفِ سلام میں آپ نے اُبھارے ہیں ان سے بھی آپ کی شاعرانہ صلاحیتیں نکھر نکھر کر سامنے آئی ہیں۔
صنفِ سلام سے مولانا اعجازؔ صاحب کا والہانہ اور فطری لگاو قابل تحسین تھا۔ میرا بارہا مُشاہدہ رہا ہے کہ آپ ہر اجلاس میں ایک نیاسلام لے کر حاضر ہواکرتے اور اپنی بھرپور مترنم آواز میں پڑھا کرتے تھے۔آپ کی زنبیلِ شاعری میں ایسے نہ جانے کتنے سلام جگمگ جگمگ کررہے ہوں گے اس کا حتمی علم نہیں۔ سعید اعجازؔ کامٹوی کے مرقومہ مختلف سلام سے بہ طورِ نمونہ ذیل میں کچھ بند خاطر نشین فرمائیں ؎
اے حبیبِ احمدِ مجتبیٰ دلِ مبتلا کا سلام لے
جو وفا کی راہ میں کھو گیا اُسی گم شدہ کا سلام لے
اے حبیبِ احمدِ مجتبیٰ دلِ مبتلا کا سلام لے
ترے آستاں کی تلاش میں ، تری جستجو کے خیال میں
اے شہ زمن ، دل و جانِ من ، اے سراپا رحمتِ ذوالمنن
جو لٹا چکا ہے متاعِ دل ، اُسی بے نوا سلا م لے
اے حبیبِ احمدِ مجتبیٰ دلِ مبتلا کا سلام لے
………
الصلاۃ والسلام
اے نبی اقصیٰ مقام
السلام
رہبرِ اعظم نورِ مجسم
آپ کا عالم ، کیا کہیے کیا کہیے
قامتِ زیبا ، روے مصفّا
حُسن میں یکتا کیا کہیے کیا کہیے
آپ کا جلوہ جلوۂ حق
باطل کا چہرہ ہے فق
رحمتِ یزداں ، زیست کے عنواں ، درد کے درماں
اک نگاہِ فیضِ عام ، لیجیے سب کا سلام السلام
الصلاۃ والسلام
اے نبی اقصیٰ مقام
السلام
………
ہے سارے غلاموں کی یہ صدا
السلامُ علیک رسول اللہ
ہم پر ہو نگاہِ لطف و عطا
السلامُ علیک رسول اللہ
اے آمنہ بی بی کے دل بر ، یانبی یا رسول
اے سارے غلاموں کے سرور ، یانبی یا رسول
اے جملہ رسولوں سے برتر ، یانبی یا رسول
معراج میں تھے مہمانِ خدا
السلامُ علیک رسول اللہ
………
صلِ علیٰ سیدنا خیرالانام
میرے نبی پر ہو لا کھوں سلام
لطف و کرم کی آس لگی ہے
دھوپ ہے غم کی پیاس لگی ہے
بہرِ خدا اب ہو عطا کوثر کا جام
میرے نبی پر ہو لاکھوں سلام
صلِ علیٰ سیدنا خیرالانام
میرے نبی پر ہو لا کھوں سلام
………
اے عرَبی ہاشمی آپ پہ لاکھوں سلام
آپ سے بگڑی بنی آپ پہ لاکھوں سلام
آپ ہی ذات پر آپ ہی کے نام پر
ختم ہوئی پیغمبری آپ پہ لاکھوں سلام
اے عرَبی ہاشمی آپ پہ لاکھوںسلام
………
اے شہِ انام لیجیے سلام عرض ہے سلام لیجیے سلام
وہ آدم و مسیح ہوں یا ذبیح ہوں یا خلیل ہوں
کلیمِ حق طراز ہوں کہ یوسفِ جمیل ہو
وہ عالمِ ملائکہ کے صدر جبرئیل ہوں
سب کے آپ امام ، لیجیے سلام
اے شہِ انام لیجیے سلام عرض ہے سلام لیجیے سلام
حضور اپنے گھر کی زندگی کا صدقہ دیجیے
حضور اپنے در کی روشنی کا صدقہ دیجیے
حسن حسین و فاطمہ علی کا صدقہ دیجیے
سب ہوں شاد کام ، لیجیے سلام
اے شہِ انام لیجیے سلام عرض ہے سلام لیجیے سلام
………
مصطفی مجتبیٰ پہ کروروں سلام
سرورِ انبیا پہ کروروں سلام
چاند ٹکڑے ہوا ، سورج اُلٹے پھرا
قدرتِ مصطفی پہ کروروں سلام
اس سے روشن ازل ، اس سے روشن ابد
شمعِ غارِ حرا پہ کروروں سلام
………
آپ کا کہنا ہی کیا آپ ہیں خیرالانام
آپ پہ لاکھوں دُرود آپ پہ لاکھوں سلام
آپ شہِ مشرقین آپ شہِ مغربین
فاتحِ بدر و حنین جدِ امامِ حسین
آمنہ کے نورِ عین ، قلبِ غریباں کے چین
تاجِ شہی آپکے قدموں کی ٹھوکر کا نام
آپ پہ لاکھوں دُرود آپ پہ لاکھوں سلام
ہستیِ قطرہ کہاں ، وسعتِ دریا کہاں
فرش کا ذرّہ کہاں ، عرش کا تارا کہاں
میرا نصیبہ کہاں ، آپ کا روضہ کہاں
آپ کی جالی کے پاس آپ کا ادنا غلام
آپ پہ لاکھوں دُرود آپ پہ لاکھوں سلام
نعت و سلام کے علاوہ سعید اعجازؔ صاحب نے مناجات و دعا او ر مناقب بھی قلم بند کیےہیں۔ آپ کی زبانِ فیض ترجمان سے مختلف اجلاس میں مَیں نے بیش تر مناقب سماعت کی ہیں۔ آپ کی مرقومہ مناقب میں آپ نے اپنے اسلافِ کرام سے والہانہ محبت والفت کا اظہار و ابلاغ شاعرانہ نزاکتوں اور عقیدت مندانہ لطافتوں کے ساتھ کیا ہے، جن سے آپ کی اپنے بزرگوں کے تئیں مخلصانہ شیفتگی اور وارفتگی ظاہر ہوتی ہے ۔ مختلف مناقب سے نمایندہ اشعار نشانِ خاطر فرمائیں ؎
اس کی مشکل پہ آسانیاں بھی فدا
جس کو فرزندِ مشکل کشا مل گیا
ہوکے آئی ہے تو کوے شبیر سے
تیری خوشبو کا راز اے صبا مل گیا
………
ہے عقیدت شرط ، کیا ملتا نہیں بغداد سے
سارے عالم میں ہے جاری فیضِ عامِ غوثِ پاک
نقش بندی ہوں کہ چشتی سب کو حاصل ہے سرور
ہے مَے رنگین سے لبریز جامِ غوثِ پاک
………
دفعتاً کافور باطل کی سیاہی ہوگئی
ہند میں پھیلا اُجالا خواجۂ اجمیر کا
ذرّہ ذرّہ پر بہارِ دائمی کا رنگ ہے
ہے ریاضِ خلد روضہ خواجۂ اجمیر کا
………
سارا عالم دل سے جانے عظمت و شانِ رسول (ﷺ)
ایک ایسی بھی دعا اے مرتبہ دانِ رسول (ﷺ)
گلشنِ سنت کے مخلص باغبانِ محترم!
آپ کو مہکا رہا ہے خود گلستانِ رسول (ﷺ)
………
قلب کی روشنی امام علی
روح کی تازگی امام علی
جانِ اعجازؔ آپ کے صدقے
سیدی مرشدی امام علی
………
یہی ذوقِ طلب کا حاصل ہے
معرفت کا نشانِ کامل ہے
تاج والے کا نقشِ پا اعجازؔ
راہِ منزل نہیں ہے منزل ہے
آپ کے خامۂ مشک بار سے نکلی ہوئی ایک مناجات تو شہرت و مقبولیت کے افق پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی ہے۔ اللہ جل شانہٗ کی بزرگی اور مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کا صدقہ طلب کرتے ہوئے بارگاہِ رب العزت میں استغاثہ و فریاد کا یہ انداز آپ کی خوش عقیدگی کا مظہر ہے ۔ اعجازؔ صاحب کی مقبولِ خاص و عام مناجات ذیل میں ملاحظہ ہو ؎
یاخدا صدقہ کبریائی کا
صدقہ اُس نورِ مصطفائی کا
سیدھا رستہ چلائیو ہم کو
پیچ و خم سے بچائیو ہم کو
مرتے دم غیب سے مدد کیجو
ساتھ ایمان کے اُٹھا لیجو
جب دمِ واپسیں ہو یااللہ
لب پہ ہو لااِلٰہ الا اللہ
حضرت مولانا سعید اعجاز ؔ کامٹوی علیہ الرحمہ کو سچا خراجِ عقیدت یہ ہوگا کہ ان کے متوسلین ، معتقدین ، منتسبین اور صاحب زادگان ان کے منتشر کلام کو یک جا کرکے منصۂ شہود پر جلوہ گر کردیں اُن کے اس امر سے حضرت اعجازؔ صاحب کی روح کویقیناخوشی حاصل ہو گی۔ مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی علیہ الرحمہ ایک مقبول نعت گو شاعر تھے ۔ آپ کے کلام کی مقبولیت و شہرت آپ کی حیات ہی میں ملک و بیرونِ ملک ہوچکی تھی۔ رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناخوانی باعثِ سعادت و نجاتِ سرمدی ہے۔یقیناً اللہ جل شانہٗ نے کونین کی سعادتیں اُن کے نام کی ہوں گی اور اُن کو مقامِ بلند سے نواز اہوگا۔ آج اُن کے موے قلم سے نکلے ہوئے نعتیہ نغمات نہ جانے کتنے دلوں میں عشقِ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ وسلم کی شمعیں روشن کررہے ہیں ۔ آپ کے کلام کی یہ مقبولیت بارگاہِ ربِ ذوالجلال میں آپ کی مقبولیت کو ظاہر کرتی ہے ۔
0 Comments