The global site tag (gtag.js) is now the Google tag. With this change, new and existing gtag.js installations will get new capabilities to help you do more, improve data quality, and adopt new features – all without additional code. خود کشی ایک سماجی مسئلہ ہے ، کاﺅنسلنگ ، تربیت اور تدبیر سے نوجوان نسل کو بچایا جا سکتا ہے ۔ ‏

خود کشی ایک سماجی مسئلہ ہے ، کاﺅنسلنگ ، تربیت اور تدبیر سے نوجوان نسل کو بچایا جا سکتا ہے ۔ ‏


خود کشی ایک سماجی مسئلہ ہے ، کاﺅنسلنگ ، تربیت اور تدبیر سے نوجوان نسل کو بچایا جا سکتا ہے ۔ 
 
زندگی پریشانی اور آرام کے مجموعے کا نام ہے۔ مصیبتوں کا مقابلہ کرنا ہی اصل زندگی ہے۔
نوری اکیڈمی یوٹیوب چینل پر خود کشی کے اسباب اور بچاﺅ کی درجنوں قابل تحسین تجاویزو مشورے


    5 مارچ بروز جمعہ 2021ء(مالیگاﺅں):زندگی پریشانی اور آرام کے مجموعے کا نام ہے۔ ہمارے بچے مصیبتوں کی گتھیاں سلجھانے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ انھیں ایسا لگتا ہے کہ صرف وہ اکیلے ہی مصیبت کا شکار ہیں اور باقی سب خوش و خرم ہیں، اس کچی سوچ کے سبب وہ خود کشی جیسے برے عمل کی جانب راغب ہورہے ہیں۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ خود کشی کرنے والا پہلے اکیلا مصیبت میں تھا مگر خود کشی کے بعد وہ اپنے اہل خانہ اور سماج کو بھی مصیبت میں گرفتار کر دیتا ہے ۔ ان کلمات کا اظہار مفتی خالد ایوب مصباحی (تحریک علماے ہند، جے پور)نے 5مارچ بروز جمعہ دوپہر تین بجے نوری اکیڈمی یوٹیوب چینل پر منعقدہ لائیو سیشن میں کیا۔ ملک میں بڑھتے ہوئے خود کشی کے واقعات کے پیش نظر نوری اکیڈمی کے ڈائریکٹر عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر) نے اپنے یوٹیوب چینل پر ارباب علم و فن کا لائیو مباحثہ بنام ”جہیز ، خود کشی اور حل“ کیا۔ اس سیشن میںمعزز مہمانان کرام نے خود کشی کے اسباب و وجوہات کے ساتھ مسئلے کے حل کے لیے بہترین تجاویز پیش کیں جن سے ہر سرپرست کا واقف ہونا ضروری ہے ۔ 


    مفتی خالد ایوب مصباحی نے اپنے تاثرات میں کہا کہ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی خواہشات کو ضرور پورا کریں مگر اسی کے ساتھ ان کی ہر کیفیت اور ہر سچویشن میں جینے کی تربیت بھی کریں،اچھے وقت میں شکر اور برے وقت میں صبر کی تلقین کریں۔انھیں مسائل حل کرنے کا گُر سکھائیںاور قانونی چارہ جوئی کا طریقہ بھی بتائیں۔ اگر آپ زندگی کے کسی مسئلے سے دوچار ہیں تو اسے حکمت عملی یا قانونی مدد سے حل کرنے کی کوشش کریں نہ کہ خود کشی کریں۔مذہبی تعلیمات کے ذریعے صبر و شکر ، معافی تلافی ،غصے سے اجتناب جیسے اوصاف کو نکھارا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے خود غرض دوستوں میں ایک ایسا مشیر خاص ہونا چاہیے جس سے آپ اپنے دل کی ہر بات کر سکیں۔ مشیر خاص کتنا ہی بیوقوف کیوں نہ ہو وہ اپنے دوست کو خودکشی کا ہرگز مشورہ نہیں دے گا۔ 


    ڈاکٹر رفیق زکریا کالج فار وویمن اورنگ آباد کے پرنسپل ڈاکٹر مخدوم فاروقی نے اپنے تاثرات میں کہا کہ خود کشی جیسا قدم ڈپریشن کے بہت بعد اُٹھایا جاتا ہے اور ڈپریشن ایک دو دن میں پیدا نہیں ہوتا ہے ۔ والدین بچوں کو وقت دیں اور ان کی نفسیاتی تربیت کریں، انھیں موبائیل اور ٹی وی کے حد سے زیادہ استعمال سے بچائیں۔ اگر ہمیں کوئی تحفہ دیتا ہے ، بھلے ہی وہ کتنا ہی سستا اور ہلکا کیوں نہ ہو ، ہم اس کی قدر کرتے ہیں، زندگی تو اللہ پاک کا بہترین تحفہ ہے، بجائے اس کی قدر کرنے کے اسے واپس کر کے اللہ کی ناراضگی کا سبب بن رہے ہیں۔ مصیبت سے گھبرا کر خود کشی کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ مصیبتیں تو دنیا میں چھوٹ جاتی ہیں مگر خود کشی کے ذریعے آپ نے آخرت کی مصیبت مول لے لی ہے اور وہاں موت بھی نہیں ہے ، ہمیشہ ہمیش مصیبت میں گرفتار رہنا ہوگا۔ مصیبتوں کا مقابلہ کرنا ہی اصل زندگی ہے۔ شادی بیاہ میں جہیز کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ بچیوں کی شادی کے وقت ہر والدین کسی نہ کسی قسم کی پریشانی میں ضرور مبتلا ہوتے ہیں، ان پریشانیوں کو بچیوں کے سامنے پیش نہ کریں، ان پریشانیوں سے آگاہی کے سبب وہ سسرال میں وقوع پذیر پریشانیوں کا ذکر والدین سے نہیں کرتی ہیں اور والدین کو پریشانیوں سے بچانے کے لیے خودکشی جیسا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ آپ نے میڈیا پر بھی سوال کھڑے کیے، ایک بچی اگر ناسازگار حالت میں سوسائیڈ کرتی ہے تو پورا میڈیا اسے کوریج دیتا ہے جب کہ ہزاروں لاکھوں بچیاں مصیبتوں کا ڈٹ کر سامنا کر رہی ہیں ، ان کی کہانیوں سے مثبت سوچ پھیلانے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو منفی باتوں سے بچائیں ۔ 


    مفتی توفیق احسن برکاتی (مبارکپور اشرفیہ)نے کہا کہ خود کشی کا تعلق امیری یا غریبی سے نہیں ہے اس لیے کہ ایسے لوگ بھی سوسائیڈ کرتے ہیں جنھیں کوئی معاشی مسائل کا سامنا نہیں ہے ، یہ ایک نفسیاتی مرض ہے جس کی نقالی کی جا رہی ہے، اس نقالی پر سیشن میں پیش کیے گئے مشوروں کے ذریعے قد غن لگایا جا سکتا ہے۔ نوجوان نسل کی کاﺅنسلنگ ہونی چاہیے۔ بچوں کو یہ سمجھایا جائے کہ ان کے ہر مسئلے کا حل والدین کے پاس ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کا اعتماد حاصل کریںاور والدین کو ایک اچھے مشیرکا کردار نبھانا چاہیے۔ 


    این ڈی نیوز چینل فتح پور کے چیف ایڈیٹر راجن سنگھ ہاڈا نے کہا کہ ماضی اور حال میں خاندانی اور معاشرتی نظام میں کافی فرق آیا ہے۔ فریڈم کے نام پر بچوں کے روم الگ کر دیے گئے ہیں۔ ہر روم میں ٹی وی ، انٹرنیٹ کنیکشن اور اسمارٹ فون رکھا ہے۔ متحدہ فیملی میں نانی دادی اور والدین بچوں کی لمحہ بہ لمحہ تربیت کرتے تھے مگر اکیلے روم میں بچہ کیا کر رہا ہے کسی کو کوئی خبر نہیں ہوتی ہے، دیر رات تک ٹی وی موبائیل کے ساتھ جاگنے سے بھی ڈپریشن ہوتا ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ حکومتی گائیڈ لائنس کے مطابق پروگرامز نشر کریں نہ کہ محض ٹی آر پی کے لیے سماج میں منافرت ، پُر تشدد اور منفی باتوںکو عام کریں۔ خود کشی کرنے والا جس قدر مجرم ہے اسی طرح ان کی ویڈیوز کو شیئر کر کے ان کے طریقے کی تبلیغ کرنے والے بھی مجرم ہیں۔ سماج کو منفی باتوں سے بچانا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔


 

   ایڈوکیٹ مومن مصدق احمد(ممبئی ہائی کورٹ) نے کہا کہ خود کشی ایک سماجی مسئلہ ہے ۔ ہندوستان میں خودکشی ایک کرائم ہے جب کہ دیگر ممالک میں ایسا نہیں ہے ۔ دیگر ممالک میں سوسائیڈ کرنے والے کی کاﺅنسلنگ کے ذریعے نفسیاتی بیماری کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آپ نے خاندانی مسائل ، جہیز کے معامالات اور عشق و محبت کے سبب ہونے والے خود کشی کے واقعات کے اعداد وشمار کو پیش کیا ۔ انسان کو چاہیے کہ وہ کسی ایک انسان پر اپنی زندگی کا انحصار نہ کریں، کسی کے نہ ملنے سے زندگی ختم نہیں ہو جاتی ہے۔ آپ نے مختلف مثالوں کے ذریعے زندگی کی اہمیت کو واضح کیاجسے نوری اکیڈمی یوٹیوب چینل پر موجود سیشن کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments