انٹرنیٹ پر فیک اور وائرل نیوز کی بھرمار کے باوجود اخبارات کا معیار اپنی جگہ برقرار
سوشل میڈیا چاہے کتنی بھی ترقی کر لے لیکن صحافت کی داغ بیل ڈالنے والے اخبارات کی حیثیت اپنی جگہ قائم
مالیگاؤں :(پریس ریلیز ) گزشتہ روز اردو ٹائمز ممبئی کے آزمودہ کار صحافی دانش اعظمی کی مالیگاؤں آمد ہوئی اور گفت و شنید کے دوران انھوں نے کہا کہ احباب سے ملاقات کا سودا سر میں سمایا تھا اور مالیگاؤں آمد اسی سلسلے کی بنیاد بنی ہے. یہاں اردو ٹائمز کے سابق نامہ نگار انصاری احسان الرحیم جیسے کنہ مشق صحافی جن سے میرے مراسم برسوں پرانے ہیں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا.
چونکہ وہ بھی ایک زمانے سے صحافت جیسے ایماندارانہ و ذمہ دارانہ شعبے سے منسلک رہے تھے اس لئے ہماری تمام تر گفتگو کا محور و مرکز صحافت ہی پر موقوف رہا تھا. بات سے بات چلی باتوں کے سلسلے دراز ہوتے ہوئے عصر حاضر کی جدید صحافت یعنی شوشل میڈیا تک آ ن پہنچی تو ان کے لائق و فائق فرزند ارجمند ساجد نعیم جو کہ شوشل میڈیا کے ذریعے اپنی صحافت کے جوہر بکھیر رہے ہیں ساتھ ہی نمائندہ نے بھی یک زبان ہو کر یہی کہا کہ سوشل میڈیا چاہے تو آسمان کی بلندیاں سر کر لے لیکن صحافت کی داغ بیل ڈالنے والے اخبارات کی حیثیت اپنی جگہ مسلم رہے گی.
دوران گفتگو دانش اعظمی نے بر ملا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی بالکل اسی طرح شوشل میڈیا کے ذریعے نمایاں کی جانے والی تمام باتیں اور خبریں اوپری سطح پر کسی تنکے کی طرح تیرتے ہوئے تہہ آب کے نظارے دکھانے سے معذور رہا کرتی ہیں. شہر کے سینئر و بزرگ صحافی انصاری احسان الرحیم نے ملاقات کے دوران اپنی زندگی کا کل سرمایہ "آئینہ صحافت "نامی تصنیف دانش اعظمی کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری زندگی کا وہ گوشوارہ ہے جسے میں نے اپنی زنبیل میں کسی نایاب خزانے کی طرح پوشیدہ کر رکھا تھا. ہو سکتا ہے اس میں صحافت کے میدان میں قدم رکھنے والے نوجوان صحافیوں کو کچھ کام کی چیزیں دستیاب ہو جائیں.
اردو ٹائمز کے صحافی خیال اثر نے دوران گفتگو جب یہ اظہار کیا کہ آج ملک کے طول و عرض میں گودی میڈیا کی اجارہ داری قائم ہوتی جارہی ہے اور کوئی بھی گوشہ ارباب سیاست کی دسترس سے دور نہیں تو ایسے نامساعد حالات میں اپنی حیثیت ثابت کرنے کے لئے کون سا لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے. اس اہم سوال پر دانش اعظمی نے برجستہ یہ شعر کہہ دیا کہ
ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
سیاست دانوں کو اپنے اوپر نہ حاوی ہونے دینا اور اپنے قارئین کو حقیقت حال سے روشناس کرنا اور وہ بھی انتہائی دیدہ دلیری اور بےباکی کے ہمراہ ہمارا اولین فریضہ ہے. ساجد نعیم نے جب یہ کہا کہ آج کے ترقی یافتہ زمانے میں یوٹیوب نیٹ یا سوشل میڈیا کو آپ کن زمروں میں رکھتے ہیں. دانش اعظمی نے بلا جھجھک جواب دیا کہ ہندوستان کی جنگ آزادی کے دوران تحریک خلافت کے سرفروش مجاہدین نے جب "ریشمی رومال تحریک "شروع کی تھی تو اس وقت ریشمی رومال پر ہاتھوں سے تحریر کردہ آزادی کی ساری پیش رفت من و عن رقم کی جاتی رہی تھی.
اس کے بعد جب زمانہ نے کروٹ بدلی تو علی برادران اور مولانا آزاد جیسوں نے آزادی کی مشعل میں اپنی صحافت کا روغن شامل کیا تو زمیں دار اور الہلال جیسے اخبارات نے وہ تہلکہ مچایا کہ جنگ آزادی کی آگ بھڑک اٹھی تھی. آج بھلے ہی عصر حاضر کے جدید تقاضوں کے طفیل صحافت نے اپنے پیراہن تبدیل کر لئے ہوں لیکن اخبارات ہی وہ مستند و معتبر صحافت کی بنیادیں ہیں جس کے پایہ استقامت کبھی بھی متزلزل نہیں ہو پائیں گے.
مذکورہ رسمی ملاقات کے دوران نجی گفتگو سے ہوتے ہوئے ملکی اور عالمی سطح کی گفت و شنید سے مستفیض ہوتے ہوئے بات جب رخصت تک پہنچی تو انصاری احسان الرحیم دانش اعظمی ساجد نعیم(فری لانس صحافی) ,عبداللہ انصاری (ای ٹی وی بھارت ), محسن حمید, عفان انصاری اور خیال اثر کے قلب و ذہن میں بھی تشنگی کا احساس حاوی رہا تھا. کیونکہ چند لمحوں کی یہ ملاقات برسہا برس کے تجربوں کا وہ آوا گمن تھا جو آنے والی کئی صدیوں تک موضوع بحث رہ سکتا ہے.
0 Comments