مساجد سے متّصل شاپنگ کا کرایہ آج کے دور کے حساب سے لے کر امام و موذن کی تنخواہ بڑھادیں
یہ دنیا بھی عجیب ہے صاحب!اپنی چیز کو ہیرے سے کم نہیں سمجھتی اور دوسرے کی چیز پتھر سے بھی کمتر!آپسی معاملات تک تو لوگوں نے برداشت کیا لیکن اب یہ معاملات دینی مِلکیت سے متعلق بھی لوگ کررہے ہیں۔معاملہ مساجد کی شاپنگ کا ہے۔اکثر پرانی مساجد میں جو شاپنگ ہے اُن کے کرایہ دار پرانے کراے سے ہی شاپنگ چلا رہے ہیں۔حالانکہ اُن کی اپنی شاپنگ ہے تو علاقے کے اعتبار سے کرایہ طے کرکے پورا کرایہ وصول کرتے ہیں۔شاپنگ لینے والے اتنے بے غیرت ہیں کہ اگر برسوں سے مسجد کی شاپنگ میں ہیں تو وہی پرانا کرایہ ادا کررہے ہیں۔اگر کرایہ دار بیس سال سے ہے تو بیس سال پہلے جو کرایہ پانچ سو روپیہ طے ہوا تھا اتنا ہی کرایہ آج کے زمانے میں بھی دیا جارہا ہے۔اور کچھ تو اتنے بے غیرت ہیں کہ ایک روپیہ بھی ادا نہیں کرتے بے شرم کی طرح قزاق بن کر اللہ کی ملکیت پر ہاتھ صاف کررہے ہیں۔اب سوچو!ایسے لوگوں کی اولادیں مسجد کا کھا کر کیا گُل کھائیں گی۔
اِس سلسلے میں شرعی نکتہ نظر سے بات کو پرکھا جاے تو درست نہیں ہے۔کیوں کہ مسجد اللہ کی ملکیت ہے اُس میں تصرّف کسی کے لیے جائز نہیں۔ٹرسٹیان اور ذمہ داران یا کراے دار چاہیں کہ آپس میں بیٹھ کر طے کرلیں تو ایسا نہیں ہوگا۔بلکہ عرف میں جتنا کرایہ دوسرے لوگوں کی شاپنگ کا علاقے میں متعین اور مشہور ہے یا جس علاقے میں جتنا کرایہ شاپنگ کا رائج ہے ٹرسٹیان مساجد کو اتنا ہی طے کرنا ہوگا اور کراے دار کو وہ دینا ہوگا۔اگر اس کے برعکس اپنی مرضی سے جتنا چاہا طے کرلیا تو ذمہ داران کو بھی اللہ کی بارگاہ حساب دینا ہوگا۔اور جیسے جیسے دن گزریں گے لوگوں کی شاپنگ کا کرایہ بڑھے گا تو مساجد کی شاپنگ کا کرایہ بھی بڑھے گا۔پرانے کراے داروں کا ہر مسجد کے ذمہ داران فوری طور پر پرانا راضی نامہ کالعدم کریں۔اور نئے طور پر قرار نامہ بناکر پورا کرایہ وصول کریں۔اگر کراے دار نیا کرایہ دینے سے انکار کریں تو شاپنگ سے اُن کے اختیار کو ختم کرکے اپنا تالا چڑھا دیں۔اور اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے تو ٹرسٹی کی جگہ خالی کرکے محلے کے نوجوانوں کو وہ جگہ دے دیں تاکہ وہ لوگ اپنے زور طاقت سے اُس کو خالی کراکے مسجد کا نظام صحیح ڈھنگ سے چلائیں۔بعض مساجد میں ایسے بھی ناعاقبت اندیش کرایہ دار ہیں جو مسجد والوں کو ایک ہزار روپئے کرایہ دیتے ہیں اور پوٹ بھاڑے کری ڈال کر چار ہزار روپئے وصول کرکے تین ہزار سے اپنی جیب ڈھیلی کررہے ہیں۔اُن کم فہم بے غیرت لوگوں کو دین نہیں پتہ یہ تین ہزار آپ کا نہیں بلکہ وہ بھی مسجد ہی کا ہے۔اگر مسجد کا چندہ کھاوگے تو ہضم کرنا دشوار ہوجاے گا۔دنیا بھی تباہ ہوگی اور آخرت بھی برباد ہوگی۔ہونا تو یہ چاہئے تھا مسجد کی شاپنگ سمجھ کر کچھ بڑھا کر دیتے۔لیکن بڑھ کر نہیں دے سکتے تو جو اور شاپنگ کا کرایہ رائج اتنا دینا پڑے گا۔کرایہ داروں سے ذمہ داران مکمل کرایہ وصول کرکے سلّک کرنے کی بجاے ائمہ اور موذنین کی تنخواہ میں اضافہ کریں۔سلّک رکھ کر کسی کی بددعا لینے سے اچھا ہے اُن کا حق دے کر دعا لے لی جاے۔
0 Comments