*حافظ شبیر احمد ملی ،ایک عاشق قرآن کی رحلت!*
*تحریر: مفتی محمد عامر یاسین ملی*
( امام و خطیب مسجد یحی زبیر مالیگاؤں 9028393682)
کل دوپہر کے وقت یہ غمناک خبر ملی کہ حافظ شبیر احمد ملی صاحب کا وصال ہوگیا، خبر سنتے ہی دل نے کہا:ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی! حافظ شبیر احمد ملی صاحب بھی ہم سے جدا ہوگئے، قرآن کریم کے جید حافظ، کثرت تلاوت کے عادی اور قرآن کریم کے عاشق ، مادر علمی معہد ملت مالیگاؤں کے ایک قدیم فیض یافتہ اور شہرعزیز مالیگاؤں کے معروف خاندان(خانوادہ حاجی عبد الرءوف) کے چشم و چراغ!
دوسال پہلے کی بات ہے،حافظ شبیر احمد ملی صاحب کی قرآنی مجلس میں حاضری کا موقع ملا، دراصل حافظ صاحب کا گذشتہ 36برسوں سے یہ مبار ک معمول رہا کہ آپ ہر سال 14؍شعبان المعظم کو ایک نشست میں مکمل قرآن کریم سناتے تھے ،موصوف نے دوسال قبل بھی شہر کی وسیع وعریض اور حسین و جمیل مسجدحاجی عبدالرؤف (لال مسجد) میں بعد نماز فجر سے عصرکے وقت تک مکمل قرآن کریم سنانے کی سعادت حاصل کی تھی۔ تلاوت سننے کے شوق میں *میں بھی حاضر تھا وہاں!* تکمیل قرآن کے بعد میرے استاذ *حافظ محمد یاسین ملی* صاحب کے حکم پر میں نے موقع کی مناسبت سے مختصر تقریر کی اور یہ واقعہ سنایا:
محمد ابن ادریس ؒتابعی ہیں، ان کے بارے میں منقول ہے کہ جب ان کا انتقال ہورہا تھا تو ان کی بیٹی رونے لگی ، انہوں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ بیٹی! مت رؤو اورپھر گھر کے کونے کی طرف اشارہ کرکے کہا:میں نے گھر کے اس کونے میں چارہزار مرتبہ قر آن مجید ختم کیاہے، مجھے اللہ تعالی سے رحمت اور مغفرت کی امید ہے ۔
مذکورہ واقعہ سناکر میں نے کہا کہ ایسی شخصیات کے واقعات عموما کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں، آج ایسی شخصیت کو دیکھنے کا موقع ملا ہے۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے مجد و شرف کہاں
قارئین! بلا مبالغہ حافظ صاحب نے اپنی زندگی میں سینکڑوں بار قرآن پاک کا دور کیا ہوگا۔وہ ایک جید حافظ قرآن کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، انہوں شہر کی تاریخی جامع مسجد میں حافظ سعید صاحبؒ کے پاس حفظ قرآن شرو ع کیا او ر پھرصوبہ مہاراشٹرکی معروف دینی درسگاہ معہد ملت میں حافظ بشیر احمد ملی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس حفظ قرآن کی تکمیل کی، تکمیل کے بعد سے حافظ صاحب مسلسل قرآن کریم پڑھنے اور سنانے میں مشغول رہے، انصار جماعت خانہ میں ایک عرصہ تک موصوف نے چھ روزہ نماز تراویح کی امامت فرمائی ۔ افسوس کہ اب رمضان المبارک میں انصار جماعت خانہ کےدرودیوار حافظ صاحب کی آواز سننے سے محروم رہیں گے۔
حافظ صاحب کو قرآن کریم سے حد درجہ لگاؤبلکہ عشق تھا۔ وہ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے اورکاروبار کرتے ہوئے قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہا کرتے تھے، اسی لیے میں انہیں *حافظ قرآن* کے ساتھ ایک *عاشق قرآن* کہتاہوں ،جس کی واضح دلیل ہر سال رمضان المبارک میں تراویح میں قرآن سنانے کے علاوہ چودہ شعبان المعظم کو ایک نشست میں مکمل قرآن کریم سنانا اوریومیہ تقریباً پانچ سے دس پارہ تلاوت کرنا ہے۔ ان کو گویا تلاوت قرآن کی وہ مٹھاس اور حلاوت مل گئی تھی، جس کے متعلق مولانا زبیر اعظمی صاحب نے کہا ہے
قرآں کی حلاوت کو کیسے سمجھاؤں زبیر اب دنیا کو
جس نے بھی مزہ پایا اس کامحسوس کیا سمجھا نہ سکا
موجودہ دور میں جب کہ قرآن کریم جذدان میں لپیٹ کر طاقوں کی زینت بنا دیاگیاہے، اور اب بہت سارے لوگ قرآن کریم کومحض رمضان المبارک میں یا پھر کسی کے انتقال کے موقع پر ہی کھولنا گوارا کرتے ہیں ،حافظ شبیر صاحب کا قرآن کریم سے لگاؤ ایسے لوگوں کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ ہے، خصوصاً ان حفاظ کے لیے حافظ صاحب کایہ عمل قابل اتباع ہے، جو کاروباری مصروفیات میں مشغول ہونے کے بعد قرآن کریم بھول جاتے ہیں۔
تحدیث بالنعمۃ کے طورپر یہ واقعہ بھی لکھ رہاہوں، مسجد عمر ابن خطاب( بڑا قبرستان )میں رمضان کی 27 ویں شب سے تین روزہ تراویح کا آغاز ہوتا ہے، تلاوت قرآن کا ذوق دیکھئے! دو سال قبل حافظ شبیر صاحب مرحوم اسی سہ روزہ تراویح میں میرا قرآن سننے کے لئے تشریف لائے،تراویح کے بعد ملاقات ہوئی تو حسب معمول میری حوصلہ افزائی کی اور ذرہ نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس آرزو کا اظہار کیا کہ ہم دونوں ایک ساتھ نماز تراویح میں قرآن پاک سنائیں گے! کاش کہ یہ آرزو پوری ہوتی
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
حافظ شبیر صاحب کو اللہ پاک نے حفظ قرآن کی دولت سے نوازا ،اور ایک خوشحال زندگی عطا فرمائی، انہوں نے خوشگوار زندگی گزاری اور قرآن پاک کے عاشق ہونے کی نسبت سے اپنی ایک اچھی شناخت قائم کی، شعبان کا مہینہ جاری ہے، آنے والی چودہ تاریخ کو حافظ صاحب کی یاد ستائے گی، اور رمضان المبارک میں انصار جماعت کے مصلیان کو ان کی یاد رلائے گی، اگر ان کو ایک ماہ کی زندگی اور مل جاتی تو یقینا حافظ صاحب پھر ایک نشست میں قرآن مجید سناتے اور نماز تراویح کی امامت بھی فرماتے۔ لیکن تقدیر نے اب ان باتوں کو یادوں کا جامہ پہنا دیا ہے۔
چند سال قبل میں نے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا: *حافظ شبیر احمد ملی، ایک زندہ حافظ قرآن!* افسوس کہ اب ان کو مرحوم لکھنا پڑھ رہا ہے،حافظ صاحب اب ایسی جگہ چلے گئے جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا اور جہاں ہر ایک کو تنہا جانا ہے، البتہ اس سفر میں انسان کے ساتھ اس کی نیکیاں ضرور ہوتی ہیں، امید ہے کہ کثرت تلاوت کے نتیجے میں ملنے والی نیکیاں سفر آخرت میں ان کی ہمرکاب ہوں گی، اور مغفرت کا ذریعہ بنیں گی ،نیز قرآن پاک قیامت کے دن ان کا سفارشی ہوگا۔
حافظ شبیر احمد صاحب کی مغفرت کے لئے دعا گو ہوں اور ان کے اہل خانہ (خانوادہ حاجی عبدالرءوف)کی خدمت میں انہی کلمات کے ذریعے تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہوں، جو کلمات جناب رسول اللہﷺ نے ایسے موقع پر ارشاد فرمائے ہیں:
اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلَہٗ مَا اَعْطیٰ وَکُلُّ شَیْ ٍٔ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ۔ (بخاری ومسلم)
(ترجمہ) بیشک اللہ ہی کا تھا جو اس نے لے لیا اور اللہ ہی کا ہے جو اس نے عطا فرمایا اور اس کے نزدیک ہر شخص کا ایک وقت مقرر ہے، لہٰذا تمہیں چاہئے کہ صبر کرو اور ثواب حاصل کرو۔
***
0 Comments